کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 32
اور رخصت ہو کر ابومسلم کے پاس آیا اور اس کو منصور کے پاس جانے پر آمادہ کر لیا۔
چنانچہ ابومسلم اپنے لشکر کو حلوان میں مالک بن ہیثم کی افسری میں چھوڑ کر تین ہزار فوج کے ساتھ مدائن کی طرف روانہ ہوا، جب ابومسلم مدائن کے قریب پہنچا تو ابومسلم کے پاس منصور کے اشارے کے موافق ایک شخص پہنچا اور ملاقات کرنے کے بعد ابومسلم سے کہا کہ آپ منصور سے میری سفارش کر دیں کہ وہ مجھ کو کسکر کی حکومت دے دے، نیز یہ کہ وزیرالسلطنت ابوایوب سے منصور آج کل سخت ناراض ہے آپ ابوایوب کی بھی سفارش کر دیں ، ابومسلم یہ سن کر خوش ہو گیا اور اس کے دل سے رہے سہے خطرات سب دور ہو گئے۔
ابو مسلم دربار میں عزت و احترام کے ساتھ داخل ہوا اور عزت کے ساتھ رخصت ہو کر قیام گاہ پر آرام کرنے گیا، دوسرے روز جب دربار میں آیا تو منصور نے پہلے سے عثمان بن نہیک، شبیب بن رواح ، ابوحنیفہ اور حرب بن قیس وغیرہ چند شخصوں کو پس پردہ چھپا کر بٹھا دیا اور حکم دے دیا تھا کہ جب میں اپنے ہاتھ پر ہاتھ ماروں تو تم نکل کر فوراً ابومسلم کو قتل کر ڈالنا، چنانچہ ابومسلم دربار میں حاضر ہوا، خلیفہ منصور نے باتوں میں اس سے ان دو تلواروں کا حال دریافت کیا جو ابومسلم کو عبداللہ بن علی سے ملی تھیں ، ابومسلم اس وقت انہی تلواروں میں سے ایک کو اپنی کمر سے لگائے ہوئے تھا، اس نے کہا کہ ایک تو یہ موجود ہے، منصور نے کہا ذرا میں بھی دیکھوں ، ابومسلم نے فوراً خلیفہ منصور کے ہاتھ میں تلوار دیدی، وہ تھوڑی دیر تک اس کو دیکھتا رہا پھر اس کو اپنے زانوں کے نیچے رکھ کر ابومسلم سے اس کی حرکات کی شکایت کرنے لگا، پھر سلیمان بن کثیر کے قتل کا ذکر کیا اور کہا کہ تو نے اس کو کیوں قتل کیا حالانکہ وہ اس وقت سے ہمارا خیر خواہ تھا جب کہ تو اس کام میں شریک بھی نہ ہوا تھا۔
ابو مسلم اول خوشامدانہ اور عاجزانہ لہجہ میں معذرت کرتا رہا لیکن دم بدم منصور کے طیش و غضب کو ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر جب اس کو یقین ہو گیا کہ آج میری خیر نہیں ہے تو اس نے جرأت سے جواب دیا کہ جو آپ کا جی چاہے کیجئے، میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا، منصور نے ابومسلم کو گالیاں دیں اور ہاتھ پر ہاتھ مارا، تالی کے بجتے ہی عثمان بن نہیک وغیرہ نے نکل کر ابومسلم پر وار کیے اور اس کا کام تمام کر دیا۔ یہ واقعہ ۲۵ شعبان ۱۳۷ھ کا ہے۔
ابو مسلم کے مارے جانے کے بعد وزیرالسلطنت نے باہر آکر ابومسلم کے ہمراہیوں کو یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ … امیر اس وقت امیرالمومنین کی خدمت میں رہیں گے، تم لوگ واپس چلے جاؤ، اس کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ نے دربار خلافت میں حاضر ہو کر ابومسلم کو دریافت کیا، جب اس کے قتل کا حال معلوم ہوا