کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 31
کرنے کے لیے بھیجا، ابومسلم کی اس ناراضی و ناخوشی کی اطلاع جب منصور کو پہنچی تو اس کو یہ فکر ہوئی کہ کہیں ابومسلم ناراض ہو کر خراسان کو نہ چلا جائے چنانچہ اس نے مصر و شام کی سند گورنری لکھ کر ابومسلم کے پاس بھیج دی۔ ابومسلم کو اس سے اور بھی زیادہ رنج ہوا کہ منصور مجھ کو خراسان سے جدا کر کے بے دست و پا کرنا چاہتا ہے چنانچہ ابومسلم جزیرہ سے نکل کر خراسان کی طرف روانہ ہوگیا، یہ سن کر منصور انبار سے مدائن کی طرف روانہ ہوا اور ابومسلم کو اپنے پاس حاضر ہونے کے لیے بلایا، ابو مسلم نے آنے سے انکار کر کے لکھ بھیجا کہ’’میں دور ہی سے آپ کی اطاعت کروں گا، آپ کے تمام دشمنوں کو میں نے مغلوب کر دیا ہے، اب جب کہ آپ کے خطرات دور ہو گئے ہیں تو آپ کو اب میری ضرورت بھی باقی نہیں رہی، اگر آپ مجھ کو میرے حال پر چھوڑ دیں گے تو میں آپ کی اطاعت سے باہر نہ ہوں گا اوراپنی بیعت پر قائم رہوں گا، لیکن اگر آپ میرے درپے رہے تو میں آپ کی خلع کا خلافت کا اعلان کر کے آپ کی مخالفت پر آمادہ ہو جاؤں گا۔ اس خط کو پڑھ کر منصور نے نہایت نرمی اور محبت کے لہجہ میں ایک خط لکھا کہ’’ہم کو تمہاری وفاداری اور اطاعت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، تم بڑے کار گزار اور مستحق انعام ہو، شیطان نے تمہارے دل میں وسوسے ڈال دیے ہیں ، تم ان وسوسوں سے اپنے آپ کو بچاؤ اور ہمارے پاس چلے آؤ۔‘‘ یہ خط منصور نے اپنے آزاد کردہ غلام ابوحمید کے ہاتھ روانہ کیا اور ان کو تاکید کی کہ منت و سماجت سے جس طرح ممکن ہو ابومسلم کو میرے پاس آنے کی ترغیب دینا، اور اگر وہ کسی طرح نہ مانے تو پھر میرے غصہ سے اس کو ڈرانا، یہ خط جب ابومسلم کے پاس پہنچا تو اس نے مالک بن ہیثم سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ تم ہرگز منصور کے پاس نہ جاؤ وہ تم کو قتل کر دے گا، لیکن ابوداؤد خالد بن ابراہیم کو خراسان کی گورنری کا لالچ دے کر منصور نے بذریعہ خط پہلے ہی اس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ ابومسلم کو جس طرح ممکن ہو میرے پاس آنے پر آمادہ کر دو، ابوداؤد کے مشورے سے ابومسلم منصور کے پاس جانے پر آمادہ ہو گیا، مگر اس نے پھر بھی اس احتیاط کو ضروری سمجھا کہ اپنے وزیر ابواسحق خالد بن عثمان کو اول منصور کے پاس بھیج کر وہاں کے حالات سے زیادہ واقفیت حاصل کرے۔ ابواسحاق پر ابومسلم کو بہت اعتماد تھا، چنانچہ اول ابواسحاق کو روانہ کیا گیا، ابواسحاق جب دربار خلافت کے پاس پہنچا تو تمام سرداران بنوہاشم اور اراکین دولت استقبال کو آئے۔ منصور نے حد سے زیادہ تکریم و محبت کا برتاو کیا اور اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے اسحاق کو اپنی جانب مائل کر کے کہا کہ تم ابومسلم کو خراسان جانے سے روک کر اول میرے پاس آنے پر آمادہ کر دو تو میں تم کو خراسان کی حکومت اس کام کے صلہ میں دے دوں گا، ابواسحاق یہ سن کر آمادہ ہو گیا