کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 30
اور اس کے دونوں لڑکوں کو گرفتار کر لیا۔ منصور نے ابومسلم کو روانہ کرنے کے بعد محمد بن صول کو آذربائیجان سے طلب کر کے عبداللہ بن علی کے پاس دھوکا دینے کی غرض سے روانہ کیا، محمد بن صول نے عبداللہ بن علی کے پاس پہنچ کر یہ کہا کہ میں نے سفاح سے سنا ہے وہ کہتے تھے کہ میرے بعد میرا جانشین میرا چچا عبداللہ ہو گا، عبداللہ بن علی بولا تو جھوٹا ہے میں تیرے فریب کو خوب سمجھ گیا ہوں ، یہ کہہ کر اس کی گردن اڑا دی، اس کے بعد عبداللہ بن علی نے حران سے روانہ ہو کر نصیبین میں آکر قیام کیا اور خندق کھود کر مورچے قائم کیے۔ منصور نے ابومسلم کو روانہ کرنے سے پہلے حسن بن قحطبہ والیٔ آرمینیا کو بھی لکھ دیا تھا کہ آکر ابومسلم کی شرکت اختیار کرے، چنانچہ حسن بن قحطبہ بھی موصل کے مقام پر ابومسلم سے آملا تھا۔ ابومسلم مع اپنے لشکر کے جب نصیبین کے قریب پہنچا تو نصیبین کا رخ چھوڑ کر شام کے راستے پر پڑاو ڈالا اور یہ مشہور کیا کہ مجھ کو عبداللہ بن علی سے کوئی واسطہ نہیں ، میں تو شام کی گورنری پر مامور کیا گیا ہوں اور شام کو جا رہا ہوں ، عبداللہ بن علی کے ہمراہ جو شامی لوگ تھے وہ یہ سن کر گھبرائے اور انہوں نے عبداللہ بن علی سے کہا کہ ہمارے اہل و عیال ابومسلم کے پنجۂ ظلم میں گرفتار ہو جائیں گے، بہتر یہ ہے کہ ہم اس کو شام کی طرف جانے سے روکیں ، عبداللہ بن علی نے ہر چند سمجھایا کہ وہ ہمارے ہی مقابلہ کو آیا ہے شام میں نہ جائے گا لیکن کوئی نہ مانا، آخر عبداللہ بن علی نے اس مقام سے کوچ کیا، جب عبداللہ بن علی اپنے مقام کو چھوڑ کر شام کی طرف روانہ ہوا تو ابومسلم فوراً عبداللہ بن علی کی بہترین لشکر گاہ میں آکر مقیم ہو گیا اور عبداللہ بن علی کو لوٹ کر اس مقام پر قیام کرنا پڑا، جس میں پہلے ابومسلم مقیم تھا، اس طرح ابومسلم نے بہترین لشکرگاہ حاصل کر لی۔ اب دونوں لشکروں میں لڑائی کا سلسلہ جاری ہوا، کئی مہینے تک لڑائی ہوتی رہی۔ آخر ۷ جمادی الثانی یوم چہار شنبہ ۱۳۷ھ کو عبداللہ بن علی نے شکست کھائی اور ابومسلم نے فتح پاکر فتح کا بشارت نامہ منصور کے پاس بھیجا، عبداللہ بن علی نے اس میدان سے فرار ہو کر اپنے بھائی سلیمان بن علی کے پاس جاکر بصرہ میں پناہ لی اور ایک مدت تک وہاں چھپا رہا۔ قتل ابومسلم: جب عبداللہ بن علی کو شکست ہوئی اور ابومسلم نے اس کی لشکرگاہ کو لوٹ لیا اور مال غنیمت خوب ہاتھ آیا تو منصور نے اس فتح کا حال سن کر اپنے خادم ابوخصیب کو مال غنیمت کی فہرست تیار کرنے کے لیے روانہ کیا، ابو مسلم کواس بات سے سخت غصہ آیا کہ منصور نے میرا اعتبار نہ کیا اور اپنا آدمی فہرست مرتب