کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 29
کرے، اور سب سے بیوقوف وہ ہے جو ظلم کرے، کسی معاملہ میں بلا غوروفکر حکم نہیں دینا چاہئے کیونکہ فکروتامل ایک آئینہ ہے جس میں انسان اپنا حسن و قبح دیکھ لیتا ہے، دیکھو ہمیشہ نعمت کا شکر کرنا، مقدرت میں عفو کرنا، تالیف قلوب کے ساتھ اطاعت کی امید رکھنا،فتحیابی کے بعد تواضع اور رحمت اختیار کرنا۔
خروج عبداللہ بن علی:
منصور کے چچا عبداللہ بن علی کو عبداللہ سفاح نے خراسانی و شامی لشکر کے ساتھ اپنی موت سے پہلے صائفہ کی طرف روانہ کر دیا تھا، محرم سنہ ۱۳۷ھ میں منصور انبار میں پہنچ کر تخت نشین خلافت ہوا تھا۔ عیسیٰ بن موسیٰ نے سفاح کی وفات کی عبداللہ بن علی کو بھی اطلاع دی تھی، اور لکھا تھا کہ سفاح نے اپنے بعد منصور کی خلافت کے لیے وصیت کی ہے، عبداللہ بن علی نے لوگوں کو جمع کر کے کہا کہ عبداللہ سفاح نے جب مہم حران کے لیے فوج روانہ کرنی چاہی تھی تو کسی کو اس طرف جانے کی ہمت نہ ہوئی تو سفاح نے کہا کہ جو شخص اس مہم پر جائے گا وہ میرے بعد خلیفہ ہو گا، چنانچہ اس مہم پر میں روانہ ہوا اور میں نے ہی مروان بن محمد اور دوسرے اموی سرداروں کو شکست دے کر اس مہم میں کامیابی حاصل کی، سب نے اس کی تصدیق کی اور عبداللہ بن علی کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
عبداللہ بن علی نے مقام دلوک سے مراجعت کر کے مقام حران میں مقاتل بن حکیم کا محاصرہ کر لیا، چالیس روز تک محاصرہ کیے رہا، اثناء محاصرہ میں اہل خراسان سے مشتبہ ہو کر ان میں سے بہت سے آدمیوں کو قتل کر دیا اور حمید بن قحطبہ کو والیٔ حلب مقرر کر کے ایک خط دے کر روانہ کیا، جوزفر بن عاصم گورنر حلب کے نام تھا،اس خط میں لکھا تھا کہ حمید کو پہنچتے ہی قتل کر ڈالنا، حمید نے راستے میں خط کھول کر پڑھ لیا، اور بجائے حلب کے عراق کی طرف چل دیا۔
ادھر منصور جب انبار میں پہنچا ہے تو ابومسلم بھی وہاں پہلے پہنچ چکا تھا، ابومسلم نے منصور کے ہاتھ پر بیعت کی اور منصور نے اس کے ساتھ عزت افزائی اور دلجمعی کا برتاؤ کیا، اسی اثناء میں خبر پہنچی کہ عبداللہ بن علی باغی ہو گیا ہے، منصور نے ابومسلم سے کہا کہ مجھ کو عبداللہ بن علی کی طرف سے بہت خطرہ ہے، ابومسلم تو ایسے واقعات کا خواہش مند ہی تھا فوراً آمادہ ہو گیا کہ اس طرح منصور کو بھی براہ راست احسان مند بنایا جا سکے گا، چنانچہ ابومسلم کو عبداللہ بن علی کی سرکوبی پر مامور کیا گیا۔
ابن قحطبہ جو عبداللہ بن علی سے ناراض عراق کی جانب آرہا تھا وہ ابومسلم سے آملا، عبداللہ بن علی نے مقاتل بن حکیم کو امان دے دی اور مقاتل نے حران عبداللہ بن علی کے سپرد کر دیا، عبداللہ بن علی نے مقاتل کو مع ایک خط کے عثمان بن عبدالاعلیٰ حاکم رقہ کے پاس بھیجا، عثمان نے مقاتل کو پہنچتے ہی قتل کر دیا