کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 27
قیام کرنا نہایت ضروری تھا کہ دونوں ساتھ ساتھ سفر کرتے۔ ابو جعفر منصور یہ خبر سنتے ہی فوراً مکہ سے روانہ ہو گیا لیکن ابو مسلم اس سے آگے سفر کرتا ہوا انبار پہنچا۔ اس کے بعد منصور داخل دارالخلافہ ہوا۔ ابو مسلم اور ابو جعفر کو روانہ کرنے کے بعد ابوالعباس عبداللہ سفاح چار برس آٹھ مہینے خلافت کر کے بہ تاریخ ۱۳ ذی الحجہ سنہ ۱۳۶ھ کو فوت ہوا۔ اسی کے چچا عیسیٰ نے نماز جنازہ پڑھائی، انبار میں دفن ہوا۔ اس نے مرنے سے پہلے اپنے بھائی ابوجعفر منصور اور اس کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ کی ولی عہدی کا عہد نامہ لکھ کر ایک کپڑے میں لپیٹ کر اور اپنے اہل بیعت کی مہریں لگا کر عیسیٰ کے سپرد کر دیا تھا۔ چونکہ منصور موجود نہ تھا، اس لیے عیسیٰ بن موسیٰ نے منصور کی خلافت کے لیے لوگوں سے نیابتاً بیعت لی اور اس واقعہ کی اطلاع کے لیے مکہ کی طرف قاصد روانہ کیا۔ عبداللہ سفاح نے مال و دولت سے اپنی خلافت کے قیام و استحکام میں اسی طرح کام لیا جس طرح بانیٔ خلافت بنو امیہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کام لیا تھا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی سخاوت کے ذریعہ سے اپنے مخالفوں یعنی علویوں کا منہ بند کر دیا تھا اور ان کو اپنا ہمدرد بنا لینے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی طرح بانی خلافت عباسیہ سفاح کے مقابلہ پر بھی علوی ہی دعوے دار خلافت تھے۔ انہوں نے عباسیوں کے ساتھ مل کر بنو امیہ کو برباد کیا تھا اور اب عباسی خاندان میں خلافت کے چلے جانے سے وہ بالکل اسی طرح ناخوش تھے جیسے کہ خاندان بنو امیہ میں خلافت کے چلے جانے سے ناراض تھے۔ عبداللہ سفاح نے بھی علویوں کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرح بے دریغ مال و دولت دے کر خاموش کر دیا۔ جب سفاح کوفہ میں خلیفہ بنایا گیا تو عبداللہ بن حسن مثنیٰ بن علی اور دوسرے علوی لوگ کوفہ میں آئے اور کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ خلافت جو ہمارا حق تھا، اس پر تم نے قبضہ کیا۔ یہ عبداللہ بن حسن مثنیٰ ہیں جن کے لڑکے محمد کو بماہ ذی الحجہ سنہ ۱۳۱ھ مکہ میں مجلس کے اندر عباسیوں اور علویوں نے خلافت کے لیے منتخب کیا تھا اور تمام حاضرین مجلس کے ساتھ ابو جعفر منصور نے بھی محمد کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ سفاح نے عبداللہ بن حسن مثنیٰ کی خدمت میں دس لاکھ درہم پیش کر دیے حالانکہ یہ رقم سفاح کے پاس اس وقت موجود نہ تھی، ابن مقرن سے قرض لے کر دی۔ اسی طرح ہر ایک علوی کو انعام و اکرام سے مالا مال کر کے رخصت کیا۔ عبداللہ بن حسن ابھی سفاح کے پاس سے رخصت نہ ہوئے تھے کہ مروان بن محمد کے قتل ہونے کی خبر اور بہت سے قیمتی جواہرات و زیورات جو مال غنیمت میں آئے تھے، لے کر قاصد پہنچا۔ سفاح نے وہ تمام قیمتی جواہرات و زیورات بھی عبداللہ بن حسنی مثنیٰ کو دے دیے اور اسی ہزار دینار دے کر وہ زیورات ایک تاجر سے عبداللہ بن حسن نے خرید لیے۔ غرضیکہ عبداللہ سفاح سے اس کام میں ذرا بھی کوتاہی ہوتی تو یقینا علوی فوراً علانیہ مخالفت پر