کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 26
جس میں محمد بن علی اور ابراہیم بن محمد جیسے شخص یعنی بانی تحریک عباسیہ پیدا ہو سکتے ہیں اور خلافت بنو امیہ کی بربادی سے فارغ ہو کر ابھی اس پر قابض ہوئے ہیں ۔ ابو مسلم نے اگرچہ سب سے زیادہ کام کیا تھا لیکن وہ اس کام میں عباسیوں کا شاگرد اور عباسیوں ہی کا تربیت کردہ تھا۔
غرض ابو مسلم نے سفاح سے حج کی اجازت طلب کی۔ سفاح نے اس کو اجازت دی اور لکھا کہ اپنے ہمراہ پانچ سو آدمیوں سے زیادہ نہ لاؤ۔ ابو مسلم نے لکھا کہ لوگوں کو مجھ سے عداوت ہے، اتنے تھوڑے آدمیوں کے ساتھ سفر کرنے میں مجھ کو اپنی جان کا خطرہ ہے۔ سفاح نے لکھا کہ زیادہ سے زیادہ ایک ہزار آدمی کافی ہیں ۔ زیادہ آدمیوں کا ساتھ ہونا اس لیے باعث تکلیف ہو گا کہ سفر مکہ میں سامان رسد کی فراہمی دشوار ہے۔ ابو مسلم آٹھ ہزار فوج کے ساتھ مرو سے روانہ ہوا اور جب خراسان کی حد پر پہنچا تو سات ہزار فوج کو سرحدی مقامات پر چھوڑ کر ایک ہزار آدمیوں کے ساتھ دارالخلافہ انبار کی طرف بڑھا۔ سفاح نے اپنے بڑے بڑے نامی سپہ سالاروں کو استقبال کے لیے بھیجا اور جب دربار میں حاضر ہوا تو اس کی بے حد تعظیم و تکریم کی اور کہا کہ اگر اس سال میرے بھائی ابوجعفر منصور کا ارادہ حج نہ ہوتا تو میں تم ہی کو امیر حج مقرر کرتا۔ اس طرح ابو مسلم کی امیر حج ہونے کی خواہش پوری ہونے سے رہ گئی۔ غرض دارالخلافہ انبار سے ابوجعفر منصور اور ابو مسلم دونوں ساتھ ساتھ حج کے لیے روانہ ہوئے۔ ابو مسلم خراسان سے ایک بڑا خزانہ ہمراہ لے کر آیا تھا۔ منصور کی معیت اس کو پسند نہ تھی کیونکہ وہ آزادانہ بہت سے کام جو کرنا چاہتا تھا، نہیں کر سکا۔ تاہم اس نے مکہ کے راستے میں ہر منزل پر کنوئیں کھدوائے، سرائیں بنوانے اور مسافروں کے لیے سہولتیں بہم پہنچانے کے کام شروع کرا دیے۔ کپڑے تقسیم کیے، لنگر خانے جاری کیے، لوگوں کو بے دریغ انعامات دیے اور اپنی سخاوت و بخشش کے ایسے نمونے دکھائے کہ لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہو گئے۔
مکہ مکرمہ میں بھی اس نے یہی کام وسیع پیمانے پر کیے، جہاں ہر طرف کے لوگ موجود تھے۔ ایام حج کے گزرنے پر ابوجعفر منصور نے ابھی روانگی کا قصد نہ کیا تھا کہ ابو مسلم مکہ سے روانہ ہو گیا۔ مکہ سے دو منزل اس طرف آگیا تھا کہ دارالخلافہ انبار کا قاصد اس کو ملا جو سفاح کے مرنے کی خبر اور ابوجعفر منصور کے خلیفہ ہونے کی خوشخبری لے کر منصور کے پاس جا رہا تھا۔ ابو مسلم نے اس قاصد کو دو روز تک ٹھہرائے رکھا اور پھر منصور کے پاس روانہ کر دیا۔ منصور کو ابو مسلم کے پہلے ہی روانہ ہونے کا ملال تھا۔ اب اس بات کا ملال اور ہوا کہ ابو مسلم نے اس خبر کے سننے پر منصورکو خلافت کی مبارکباد نہیں بھیجی۔ بیعت کے لیے بھی نہیں ٹھہرا حالانکہ سب سے پہلے اسی کو بیعت کرنی چاہیے تھی اور کم از کم منصور کے آنے تک اسی مقام پر