کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 25
استقلال کے بعد وہ خراسان کا گورنر بنا دیا گیا اور سفاح نے اس کے نام باقاعدہ سند حکومت بھی بھیج دی مگر ابو مسلم نے خود حاضر دربار خلافت ہو کر بیعت نہیں کی تھی۔ وہ شروع میں پہلی مرتبہ جب امام ابراہیم کی طرف سے خراسان بھیجا گیا تھا، اسی وقت سے اب تک مسلسل خراسان میں موجود تھا۔ اسی نے خراسان پر قبضہ کیا۔ اسی نے اپنی حکومت قائم کی اور وہی ہر طرح خراسان پر مستولی تھا۔ جب ایک ایک کر کے تمام دشمنوں کا کام تمام ہو گیا تو عبداللہ سفاح کو خیال آیا کہ ابو مسلم کی منشاء کے خلاف نہ اس کو کسی صوبہ کی حکومت پر تبدیل کر سکتا تھا نہ اس کے زور قوت کو گھٹا سکتا تھا۔
ابو مسلم اپنے آپ کو خلافت عباسیہ کا بانی سمجھتا اور اپنے آپ کو خلیفہ سفاح کا سرپرست جانتا تھا۔ وہ خلیفہ سفاح کو مشورے دیتا اور سفاح اس کے مشوروں پر اکثر عمل کرتا لیکن خراسان کے معاملات میں وہ سفاح سے اجازت یا مشورہ لینا ضروری نہ سمجھتا تھا۔ عثمان بن کثیر عباسیوں کے نقباء میں ایک نامور اور سب سے پرانا نقیب تھا، اس کو ابومسلم نے ذاتی کاوش کی بنا پر قتل کر دیا اور سفاح اس کے متعلق ابومسلم سے کوئی جواب طلب نہ کر سکا اور سفاح، اس کے چچا، اس کے بھائی بھی اپنے حوصلے بلند رکھنے اور ابومسلم کی اس خود سرانہ حکمرانی کو برداشت نہ کر سکتے تھے۔
سفاح نے جب اپنے بھائی ابو جعفر منصور کو خراسان کی طرف بیعت لینے کے لیے بھیجا اور اسی کے ہاتھ ابو مسلم کے نام سند گورنری بھیجی تو ابو مسلم کا برتاؤ ابوجعفر منصور کے ساتھ مؤدبانہ نہ تھا، بلکہ اس کی ہر ایک حرکت سے ابوجعفر نے خود سری اور مطلق العنانی محسوس کی تھی۔ چنانچہ ابومسلم اور ابوجعفر کے درمیان دلوں میں ایک کشیدگی پیدا ہو چکی تھی۔ ابوجعفر نے جب یہ تمام حالات سفاح کو سنائے تو وہ اور بھی زیادہ اس فکر میں پڑ گیا کہ ابو مسلم کے اقتدار و اثر اور اختیار و تسلط کو کس طرح کم کرے۔ چنانچہ اس نے یہی مناسب سمجھا کہ ابو مسلم کا کام تمام کر دیا جائے۔ اسی لیے زیاد بن صالح اور سباع بن نعمان ازدی سے سفاح نے اس کام کی سفارش کی جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ غرض حالت یہ تھی کہ سفاح اور ابو مسلم کے دل صاف نہ رہے تھے۔
ابو مسلم چونکہ اقتدار پسند اور اولوالعزم شخص تھا۔ اس کو جب خلیفہ سفاح کی طرف سے شبہ پیدا ہوا تو اس نے صرف خراسان ہی پر اپنے اثر و اقتدار کو کافی نہ سمجھ کر حجاز و عراق میں بھی اپنا اثر قائم کرنے کی کوشش ضروری سمجھی تاکہ اگر ضرورت پڑے تو وہ عباسیوں کو کچل سکے۔ ایک ایسے شخص کا جو دعوت عباسیہ کو کامیاب بنا چکا تھا، حجاز و عراق اور تمام اسلامی ممالک میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے کام پر مخفی طریقہ سے آمادہ ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہ تھی، لیکن اس کو یہ بات یاد نہ رہی کہ اس کے مقابلہ پر وہ خاندان ہے