کتاب: تاریخ اسلام جلد دوم (اکبر شاہ) - صفحہ 144
اور کوئی تدبیر ایسی نہ تھی جو اس کام کا بیڑا اٹھائے مگر قدرت نے خود ایسے سامان فراہم کر دیے کہ فضل کو حسرت ناک موت کا سامنا کرنا پڑا۔
شورش بغداد !
ہرثمہ جب مرو کے جیل خانہ میں مقتول ہوا تو حسن بن سہل اس زمانہ میں بجائے بغداد کے نہروان میں مقیم تھا۔ بغداد میں جب ہرثمہ کے قتل ہونے کی خبر پہنچی تو یہاں ایک تلاطم برپا ہو گیا اور عام طور پر لوگوں کی زبان پر یہی تذکرہ آنے لگا کہ فضل بن سہل نے خلیفہ اور خلافت پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ چونکہ مجوسی ابن مجوسی ہے اس لیے اب اہل عرب کو ذلتیں اٹھانی پڑیں گی۔ چنانچہ محمد بن ابی خالد نے اہل بغداد کو یقین دلایا کہ میں حسن بن سہل کو عراق سے خارج کر دوں گا۔ اہل بغداد نے اس کی اطاعت اختیار کی، محمد بن خالد نے فوج ترتیب دے کر بغداد کے عامل علی بن ہشام کو جو حسن بن سہل کی طرف سے بغداد میں مامور تھا نکال دیا۔ حسن بن سہل نے نہروان سے بغداد کی طرف فوجیں بھیجیں محمد نے سب کو شکست دے کر بھگا دیا۔ حسن بن سہل واسط میں پہنچا۔ وہاں پہنچے ہوئے اس کو زیادہ دن نہ ہوئے تھے کہ محمد بن ابی خالد بغداد سے واسط کی طرف فوج لے کر روانہ ہوا۔
حسن بن سہل یہ خبر سن کر واسط سے چل دیا۔ محمد بن ابی خالد نے واسط میں داخل ہو کر قبضہ کیا اور حسن بن سہل کے تعاقب میں فوراً روانہ ہو گیا۔ حسن بن سہل نے لوٹ کر مقابلہ کیا اتفاقاً محمد بن ابی خالد کو شکست ہوئی۔ محمد بن ابی خالد نے جرجرایا میں آکر قیام کیا اور اپنی حالت درست کر کے پھر حسن بن سہل کا مقابلہ کیا، متعدد لڑائیاں ہوئیں ، ایک لڑائی میں محمد بن ابی خالد سخت زخمی ہو گیا، اس کا بیٹا اس کو لے کر بغداد میں آیا۔ یہاں آتے ہی محمد بن ابی خالد فوت ہو گیا، اس کے بعد اہل بغداد نے منصور بن مہدی بن منصور عباسی کو خلیفہ بنانا چاہا مگر منصور نے انکار کیا۔ آخر بڑے اصرار کے بعد منصور کو اس بات پر رضا مند کر لیا کہ خلیفہ مامون ہی رہے اسی کا نام خطبہ میں لیا جائے مگر بجائے حسن بن سہل کے نائب السلطنت منصور بن مہدی رہے۔ چنانچہ ماہ ربیع الاول ۲۰۱ھ میں منصور بن مہدی نے بغداد کی حکومت اپنے ہاتھ میں لی اور عیسیٰ بن محمد بن ابی خالد سپہ سالار لشکر مقرر ہوا۔
حسن بن سہل نے اب اپنی حالت کو درست کر کے منصور بن مہدی کے مقابلہ پر فوجیں بھیجیں اور لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں یہ ہنگامہ آرائیاں ہو رہی تھیں ۔ ادھر مرو میں مامون الرشید بالکل بے خبر اور مطمئن تھا، کیونکہ فضل بن سہل نے اس کے پاس براہ راست خبر پہنچنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رکھا تھا۔
منصور بن مہدی اور حسن بن سہل کی معرکہ آرائیوں کے زمانے میں بغداد کے اوباشوں اور