کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 99
ہمراہ آگے چلے گئے۔[1] حرب فجار (یعنی پہلی شرکت جنگ) : مقام عکاظ میں ہر سال بڑا بھاری میلہ لگتا تھا، اس میلہ میں مشاعرے منعقد ہوتے تھے۔ گھڑ دوڑ ہوتی تھی ، پہلوانوں کی کشتیاں اور فنون سپاہ گری کے دنگل بھی ہوتے تھے، عرب کے تمام قبائلجنگ جوئی میں حد سے بڑھے ہوئے تھے اور بات بات پر تلواریں کھینچ جاتی تھیں ۔عکاظ کے میلہ میں کسی معمولی سی بات پر قبیلہ ہوازن اور قریش کے درمیان چھیڑ چھاڑ شروع ہو گئی، اولاً تو دونوں قبیلوں کے سمجھ دار لوگوں نے بات کو بڑھنے نہ دیا اور معاملہ رفع دفع ہو گیا، لیکن شر پسند لوگ بھی ہر قوم میں بکثرت ہوا کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ معاملہ درست ہونے کے بعد پھر بگڑا اور جدال و قتال کا بازار گرم ہوا، یہ لڑائی ماہ ذوالقعدہ میں ہوئی، اسی لیے اس کا نام حرب فجار مشہور ہوا، کیونکہ اہل عرب کے عقیدے کے موافق ماہ ذوالقعدہ میں لڑنا سخت گناہ کا کام تھا، اس مہینے میں جاری شدہ لڑائیاں بھی ملتوی ہو جاتی تھیں ۔ یہ لڑائی چار بڑی بڑی لڑائیوں کا ایک سلسلہ تھی اور ہر پہلی لڑائی دوسری لڑائی سے زیادہ سخت و شدید ہوتی تھی، کیونکہ قبیلہ ہوازن کے ساتھ قیس عیلان کے تمام دوسرے قبائل اور قریش کے ساتھ کنانہ کے تمام قبائل بھی شامل تھے اور یہ لڑائی ترقی کر کے قبائل قیس اور قبائل کنانہ کی لڑائی بن گئی، اس آخری چوتھی لڑائی میں بعض سرداروں نے خود اپنے پاؤں میں اس لیے بیڑیاں ڈلوائی تھیں کہ میدان جنگ سے کسی طرح بھی بھاگ نہ سکیں۔ اسی آخری چوتھی لڑائی میں پہلی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسلح ہو کر شریک جنگ ہوئے۔ بنوکنانہ میں ہر قبیلہ کا سردار جدا جدا تھا، چنانچہ بنو ہاشم کے سردار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب تھے اور ساری فوج یعنی تمام بنو کنانہ کا سپہ سالار اعظم حرب بن امیہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اس وقت پندرہ یا بیس سال کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد یہ خدمت تھی کہ آپ اپنے چچاؤں کو تیر اٹھا اٹھا کردیتے جاتے تھے۔[2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود کسی سے مقابلہ اور قتال کا موقع نہیں ملا، اس لڑائی میں اوّل تو بنو ہوازن غالب نظر آتے تھے، بالآخر بنو کنانہ غالب اور قبائل قیس مغلوب ہونے لگے، پھر صلح پر لڑائی موقوف ہو گئی۔
[1] مختصر السیرۃ مؤلفہ شیخ عبداللہ، صفحہ ۱۶ بہ حوالہ الرحیق المختوم/ سیرت ابن ہشام، صفحہ ۹۰/ سنن ترمذی، ابواب المناقب ماجاء فی بدء نبوۃ النبی صلي الله عليه وسلم کے تحت جو حدیث مرقوم ہے، اس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوطالب نے بلال رضی اللہ عنہ کو بھی بھیجا۔ محقق العصر فی الحدیث شیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ اس حدیث کی تخریج میں کہتے ہیں کہ یہ درست نہیں ، کیونکہ بلال رضی اللہ عنہ تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ [2] سیرت ابن ہشام، صفحہ ۹۲۔