کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 98
ہونے پر مجلس برخاست ہوئی اور لوگ منتشر ہو گئے تب کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس مکروہات میں کوئی حصہ نہ لے سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر غالباً سات برس کی تھی کہ قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیر جس کو سیلاب نے نقصان پہنچا دیا تھا، دوبارہ شروع کی، اس تعمیر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی پتھر ڈھوتے اور اٹھا اٹھا کر معماروں کو دیتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند باندھ رکھا تھا جو چلنے پھرتے اور پتھر اٹھا کر لے جانے میں کسی قدر دقت پیدا کرتا تھا، چونکہ سات برس کی عمر کے بچے کا ننگا پھرنا وہ لوگ کچھ معیوب نہ جانتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تہبند کی دقت سے آزاد کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کہے بغیر تہبند کا سرا پکڑ کر جھٹکا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ننگا کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر شرم و حیا رکھتے تھے کہ ننگے ہوتے ہی بیہوش ہو گئے اور لوگوں کے سامنے اپنے ننگے ہونے کو برداشت نہ کر سکے، سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شرم و حیا کے معلوم ہونے سے تعجب ہوا، اور فوراً تہبند باندھ دیا گیا۔[1] پہلا سفر شام: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بارہ سال کی تھی کہ ابوطالب ایک تجارتی قافلہ کے ہمراہ کچھ مال تجارت لے کر شام کی طرف جانے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ ہی چھوڑنا چاہا، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطالب کی کفالت میں آ کر ہمہ وقت ان کے ساتھ رہتے تھے، اس لیے اس جدائی کو برداشت نہ کر سکے، ابوطالب نے بھتیجے کی دل شکنی گوارا نہ کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے ہمراہ ملک شام کی طرف لے گئے۔ ملک شام کے جنوب مشرقی حصہ میں ایک مقام بصری ہے، جب قافلہ وہاں پہنچا تو ایک عیسائی راہب نے جو وہاں رہتا تھا اور جس کا نام بحیرہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور پہچان لیا کہ یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخرالزماں ہیں ، بحیرا ابوطالب کے پاس آیا اور کہا کہ یہ تمہارا بھتیجا نبی مبعوث ہونے والا ہے، اس کے اندر وہ علامات موجود ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخرالزماں کے متعلق توریت و انجیل میں لکھی ہیں ، لہٰذا مناسب یہ ہے کہ تم اس کو آگے نہ لے جاؤ اور یہودیوں کے ملک میں داخل نہ ہو، مبادا اس کو کوئی گزند پہنچے۔ ابوطالب نے بحیرا راہب کی یہ باتیں سن کر اپنا مال جلدی جلدی وہیں فروخت کر دیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر مکہ معظمہ کی طرف واپس چلے آئے، ابوطالب کو باوجود اس کے کہ ملک شام کے شہروں میں داخل نہیں ہوئے اس سفر میں بہت منافع ہوا، ایک روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ ابوطالب نے بحیرا راہب کی باتیں سن کر آپ کو وہیں سے مکہ کی طرف واپس بھجوا دیا اور خود قافلہ کے
[1] صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ حدیث : ۳۶۴۔