کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 97
کے ساتھ کھیل رہے تھے سیّدنا جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل چیرا اور ایک قطرہ نکال کر کہا یہ شیطان کا حصہ تھا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل سونے کے طشت میں آب زمزم سے دھویا پھر اس کو بجنسہ جہاں رکھا ہوا تھا رکھ دیا۔[1] عبدالمطلب کی وفات: دو برس تک عبدالمطلب کی سرپرستی و نگرانی میں پرورش پا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ سال کی عمر کو پہنچے تھے کہ عبدالمطلب کا بھی انتقال ہو گیا، جب عبدالمطلب کا جنازہ اٹھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چشم پر آب جنازے کے ساتھ تھے۔ عبدالمطلب نے مرنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ انتظام کر دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بیٹے ابوطالب کی کفالت میں دے کر خاص طور پر وصیت کی تھی کہ اس لڑکے یعنی اپنے بھتیجے کی خبرگیری میں کوتاہی نہ کرنا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور بھی چچا یعنی عبدالمطلب کے بیٹے موجود تھے لیکن عبدالمطلب نے جو بہت ہی ذی ہوش انسان تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوطالب کے سپرد اس لیے کیا تھا کہ ابو طالب اور عبداللہ ایک ہی ماں سے پیدا ہوئے تھے، لہٰذا ابوطالب کو اپنے حقیقی بھائی عبداللہ کے بیٹے سے زیادہ محبت ہو سکتی تھی۔ عبدالمطلب کا یہ خیال بالکل درست ثابت ہوا اور ابوطالب نے باپ کی وصیت کو بڑی خوبی و جواں مردی کے ساتھ پورا کیا۔ ابوطالب کی کفالت: ابو طالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بچوں سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتے تھے، حتی کہ رات کے وقت بھی اپنے پاس ہی سلاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طفولیت کا زمانہ عرب کے دوسرے لڑکوں کی نسبت بہت ہی عجیب گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑکوں میں کھیلنے اور آوارہ پھرنے کا مطلق شوق نہ تھا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی صحبت سے بیزار اور دور و نفور ہی رہتے اور خلوت کو زیادہ پسند کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہررذیل خصلت اور خسیس عادت سے محفوظ و مامون رکھا۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند نوجوانان قریش کے ساتھ کسی شادی کی مجلس میں جانے اورشریک ہونے کے لیے مجبور کیے گئے جہاں رقص و سرود کا ہنگامہ بھی تھا، جو نہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں داخل ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یکایک نیند آگئی، تمام رات اسی طرح سوتے رہے یہاں تک کہ رات ختم
[1] صحیح مسلم۔ کتاب الایمان، باب الاسراء۔