کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 92
صرف اونٹوں کا مالک ہوں مگر اس گھر کا بھی ایک مالک ہے وہ اپنے گھر کی خود حفاظت کر لے گا‘‘ ابرہہ اس جواب کو سن کر برہم ہوا اور اس نے کہا کہ اچھا میں دیکھوں گا کہ رب البیت مجھ کو کس طرح روکتا اور کعبہ کی حفاظت کرتا ہے، چنانچہ اس کے لشکر پر تباہی آئی اور وہ سب ﴿کَعَصْفٍ مَّاْکُوْل﴾ (’’کھایا ہوا بھوسہ۔‘‘) ہو گئے۔[1] ابرہہ اور اس کے لشکر کا عبدالمطلب کے اس جواب کے بعد اس طرح تباہ و برباد ہونا ملک عرب کے لیے ایک نہایت عظیم الشان واقعہ تھا، جس نے سب کے دلوں میں ہیبت الٰہی قائم کر دی تھی اور اکثر لوگوں کو ظلم و ستم اور قتل و غارت میں تامل ہونے لگا۔ مذکورہ واقعہ اصحاب فیل کے بعد ہی ملک یمن کی حکومت شاہ حبش کے قبضہ سے نکل گئی اور سیف بن ذی یزن (یادگار ملوک تبابعہ) ملک یمن پر قابض و متصرف ہوا، عبدالمطلب چند شرفائے قریش کو ہمراہ لے کر سیف کو حکومت یمن کی مبارک باد دینے کے لیے گئے، سیف بن ذی یزن نے اپنے علم و واقفیت کی بنا پر عبدالمطلب کو خوش خبری سنائی کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم جس کا تمام ملک اور ہر قوم کو انتظار ہے، تمہاری اولاد سے ہو گا، اس بات کی عام طور پر شہرت ہوئی، تمام شریک وفد شرکاء کو اس بات کا شبہ ہوا کہ وہ نبی ہماری اولاد سے ہو گا، اب لوگ اہل کتاب کے احبار و رہبان کے پاس جا جا کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور علامات دریافت کرنے لگے۔ امیہ بن ابی الصلت کو یہ خیال ہوا کہ وہ نبی شاید میں ہوں گا، چنانچہ وہ ابوسفیان بن حرب کے ساتھ ملک شام کی طرف گیا اور کئی رہبان کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی نسبت دریافت کیا مگر وہاں سے مایوس کن جواب ملا۔ دنیا میں کسی بڑے نبی یا رسول کی بعثت یا پیدائش کے وقت آسمان پر بڑی کثرت سے اور غیر معمولی طور پر ستارے ٹوٹتے ہوئے دیکھے جاتے رہے تھے، چنانچہ اسی کثرت سے غیر معمولی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے قریب شہاب ثاقب آسمان پر نمودار ہوئے اور علمائے اہل کتاب نے حکم لگایا کہ یہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا زمانہ ہے۔ چنانچہ ۹ ربیع الاول ۱ ھ عام الفیل مطابق ۴۰ جلوس کسریٰ نوشیروان مطابق ۲۲ اپریل ۵۷۱ء بروز دو شنبہ بعد از صبح صادق اور قبل از طلوع آفتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔[2]
[1] الرحیق المختوم (اردو)، صفحہ ۷۹ پر اس واقعہ کی کافی تفصیلات و حالات موجود ہیں ۔ رحمۃ اللعالمین جلد ۱، ص : ۶۱۔ [2] رحمت اللعالمین جلد ۱، ص ۶۱۔