کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 91
واقف ہو جاتا کہ کس طرح تیری عبادت کی جائے تو میں ضرور تیری عبادت کرتا اور تیری رضا مندی حاصل کرتا لیکن میں تو تیری رضا کی راہوں سے ناواقف ہوں (یہ کہتے اور سجدہ میں چلے جاتے)۔ [1] کاہنوں اور منجموں نے بھی یہ کہنا شروع کیا کہ ملک عرب میں ایک عظیم الشان نبی پیدا ہونے والا ہے، اور بہت جلد اسکی حکومت ظاہر ہوا چاہتی ہے، ملک عرب میں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے یہودی بھی آباد تھے اور نصاریٰ بھی ، علمائے یہود نے بھی اور علمائے نصاریٰ نے بھی توریت و انجیل کی بشارتیں بیان کرنی اور لوگوں کو سنانی شروع کیں کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم ملک عرب میں عنقریب ظاہر ہوا چاہتے ہیں ۔ چند روز کے لیے ملک یمن پر شاہ حبش کا قبضہ ہو گیا تھا، عبدالمطلب کے زمانہ میں بھی یمن کا علاقہ شاہ حبش کے ماتحت تھا، اس زمانہ میں شاہ حبش کی جانب سے ابراہۃ الاشرم یمن کا صوبہ دار تھا، اس نے یمن میں ایک معبد تیار کیا اور اہل عرب کو ترغیب دی کہ بجائے کعبہ کے یمن کے اس مندر کا رخ کیا کریں ، لیکن اس کو اپنی اس تحریک میں کامیابی نہ ہوئی بلکہ ایک عرب نے موقع پا کر اس مندر میں اس کی تذلیل کے لیے پاخانہ کہ دیا، ابرہہ نے جوش انتقام میں مکہ پر چڑھائی کی اور اس ارادہ سے روانہ ہوا کہ خانہ کعبہ کو مسمار کر دوں گا، اس کی فوج میں ہاتھی بھی تھے، اس لیے مکہ والوں نے اس فوج کا نام اصحاب الفیل اور اس سال کا نام عام الفیل رکھا۔ مکہ کے قریب پہنچ کر ابرہہ نے جب مقام کیا تو قریش مکہ اس فوج کے آنے کی خبر سن کر خوف زدہ ہوئے کیونکہ ان میں اس فوج کے مقابلہ کی طاقت نہ تھی، سب نے مل کر سردار قریش یعنی عبدالمطلب سے استدعا کی کہ آپ ابرہہ کے پاس جائیں اور کوئی صورت بہتری کی نکالیں ، چنانچہ عبدالمطلب ابرہہ کے پاس پہنچے اس نے جب ان کی شریف و وجیہہ صورت دیکھی اور ان کی نجابت و سرداری کا حال سنا تو بہت متاثر ہوا اور عزت کے مقام پر بٹھایا اور آنے کا مقصد دریافت کیا، عبدالمطلب نے کہا کہ آپ کے لشکر نے میرے (چالیس ، یا دو سو) اونٹ پکڑ لیے ہیں وہ مجھے دلوائے جائیں ، ابرہہ نے کہا کہ میں تم کو بہت عقلمند اور ذی ہوش شخص سمجھتا تھا لیکن میرا خیال غلط نکلا، تم کو معلوم ہے کہ میں خانہ کعبہ کو مسمار کرنے آیا ہوں ، تم نے اپنے اونٹ لینے کی کوشش کی لیکن خانہ کعبہ کے بچانے کی کوئی تدبیر نہ کی۔ عبدالمطلب نے فوراً برجستہ جواب دیا کہ ’’انا رب الابل وللبیت رب یمنعہ،میں تو
[1] زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کی قبل از اسلام کی کیفیت جس میں ان کی شرک سے بے زاری ظاہر ہوتی ہے، صحیح بخاری، کتاب مناقب الانصار، حدیث ۳۸۲۶ تا ۳۸۲۸ میں بیان ہوئی ہے اور ایمان میں اضافہ اور توحید سے سرشاد ہونے کے لیے لائق مطالعہ ہے۔