کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 90
دوسرا باب: سیّدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طلوع سحر: آفتاب کے طلوع ہونے سے تھوڑی دیر پیشتر صبح کی ہلکی ہلکی روشنی افق مشرق سے نمودار ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ تمام دنیا پر شب دیجور کی سیاہی اور جہالت و کفر کی تاریکی چھائی ہوئی تھی، اس عالمگیر گمراہی کی شب تاریک کے ختم ہونے کا وقت آیا تو طلوع آفتاب کی خبر دینے کے لیے اوّل سپیدئہ سحر نمودار ہوا۔ ملک عرب میں جو مرکز تاریکی بنا ہوا تھا اور جس کے ریگستانوں میں شرک و عصیاں کی آندھیاں چل رہی تھیں ، خود بخود ایسے نشانات ظاہر کرنے لگے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ اس ملک میں آفتاب رسالت طلوع ہونے اور ہدایت کا چشمہ پھوٹنے والا ہے۔ اقوام عرب ہزار ہا سال سے ذلت و مسکنت اور جہالت و گمراہی کی زندگی بسر کر رہی تھیں لیکن بعثت نبوی نہیں بلکہ پیدائش نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے قبائل عرب میں شریفانہ جذبات اور برے کاموں سے نفرت پیدا ہونے لگی تھی۔ ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ، عثمان بن الحویرث بن اسد و زید بن عمرو بن نفیل عم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، عبیداللہ بن جحش وغیرہ کئی شخص ایک جگہ جمع ہوئے اور اپنے عقائد و اعمال پر غور کرنے لگے۔ بالآخر سب نے متفقہ طور سے پتھروں اور بتوں کی پرستش سے بیزاری ظاہر کی اور مختلف مقامات کی طرف دین ابراہیمی کی جستجو میں نکل کھڑے ہوئے۔ ورقہ بن نوفل نے دین مسیحی اختیار کر لیا اور بڑی محنت و توجہ سے توریت و انجیل وغیرہ اہل کتاب کی کتابیں پڑھیں ۔ عبیداللہ بن جحش اپنے خیال پر قائم یعنی دین حنیف کی جستجو میں مصروف رہا۔ یہاں تک کہ اسلام کا ظہور ہوا اور اس نے اسلام قبول کیا، حبش کی طرف ہجرت کی۔ وہاں جا کر نصرانیت کی طرف مائل ہوا۔ عثمان بن الحویرث قیصر روم کے پاس جا کر نصرانی ہو گیا۔ زید بن عمرو نے نہ تو یہود و نصاریٰ کا مذہب اختیار کیا نہ بت پرستی کی، خون اور مردہ جانوروں کو اپنے اوپر حرام کیا، قطع رحم اور خون ریزی سے پرہیز کیا۔ جب کوئی شخص ان سے دریافت کرتا تو کہتے کہ میں رب ابراہیم علیہ السلام کی پرستش کرتا ہوں ۔ بتوں کی برائیاں بیان کرتے اور اپنی قوم کو نصیحت و ملامت کرتے۔ اکثر ان کی زبان پر یہ لفظ جاری ہوتے تھے کہ اللھم لو انی اعلم ای الوجوہ احب الیک لعبدتک ولکن لا اعلم’’یعنی اے اللہ! اگر میں اس بات سے