کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 872
خوف و خطر سے محفوظ رہنے کے لیے صرف کر دی اور مصمم ارادہ کر لیا کہ اس قبیلہ کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کر دیا جائے۔ عبداللہ سفاح کا چچا عبداللہ بن علی جب ۵ رمضان ۱۳۲ھ کو دمشق میں داخل ہوا ہے تو اس نے قتل عام کا حکم دیا، جب آخری اموی خلیفہ مروان بن محمد بوصیر میں قتل ہو چکا تو عباسیوں کے لیے سب سے ضروری کام بنوامیہ کا استیصال تھا، لیکن خلافت بنوامیہ کے قصر رفیع کو منہدم کرنے کے کام میں بعض بنوامیہ بھی عباسیوں کے شریک ہو گئے تھے اور فاتح عباسیوں کے ساتھ عزت و تکریم کے ساتھ رہتے تھے۔ اسی طرح بنو امیہ کی نسل کا تخم سوخت ہونا ممکن نہ تھا، لیکن ابومسلم اس کام پر کمر ہمت چست باندھ چکا تھا، اس نے عبداللہ سفاح اور عباسی سرداروں کو بار بار لکھا کہ بنو امیہ کے کسی فرد کو چاہے وہ کیسا ہی ہو، ہمدرد اور بہی خواہ کیوں نہ ہو، ہرگز زندہ نہ چھوڑا جائے لیکن اس مشورے پر عمل نہ ہوا، کیونکہ بعض ایسے افراد تھے جنہوں نے بڑی بڑی جمعیت کے ساتھ عین نازک و خطرناک موقعوں پر عباسیوں کی شرکت اور اموی خلیفہ کی بغاوت اختیار کر کے نہایت اہم امداد پہنچائی تھی ان کو قتل کرنے سے انسانی شرافت مانع تھی۔ ابو مسلم نے یہ اہتمام کیا کہ شاعروں اور مصاحبوں کو جو عباسی خلیفہ اور عباسی سپہ سالاروں کے دربار میں آمدورفت رکھتے تھے رشوتیں بھیج بھیج کر اور اپنی طرف سے لوگوں کو یہ تعلیم دے کر روانہ کیا کہ دربار میں جاکر ایسے اشعار پڑھیں اور ایسی باتیں کریں جس سے بنوامیہ کی نسبت عباسیوں کا غصہ بھڑکے اور ان کی طبیعت میں انتقام اور قتل کے لیے اشتعال پیدا ہو، چنانچہ اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ عباسیوں نے چن چن کر ہر ایک بنو امیہ کو قتل کر دیا، سفاح نے سلیمان بن ہشام بن عبدالملک کو سر دربار ایک ایسے ہی شاعر کے اشتعال انگیز اشعار سن کر بلا توقف قتل کرا دیا، حالانکہ سلیمان بن ہشام عبداللہ سفاح کی مصاحبت میں موجود اور اس کا بڑا ہمدرد تھا۔ عبداللہ بن علی جن دنوں فلسطین کی طرف تھا وہاں نہر ابی فطرس کے کنارے دستر خوان پر بیٹھا کھانا کھا رہا تھا اور اسی(۸۰)نوے(۹۰) بنو امیہ اس کے ساتھ کھانے میں شریک تھے، اسی اثناء میں شبل بن عبداللہ آگیا، اس نے فوراً اپنے اشعار پڑھنے شروع کیے جن میں بنو امیہ کی مذمت اور امام ابراہیم کے قید ہونے کا ذکر کر کے بنوامیہ کے قتل کی ترغیب دی گئی تھی، عبداللہ بن علی (عبداللہ سفاح کے چچا) نے اسی وقت حکم دیا کہ ان سب کو قتل کر دو، اس کے خادموں نے فوراً قتل کرنا شروع کیا، ان میں بہت سے ایسے تھے جو بالکل مر گئے تھے، بعض ایسے بھی تھے کہ وہ زخمی ہو کر گر پڑے تھے مگر ابھی ان میں دم باقی تھا،