کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 87
نئے ہدایت نامہ کی ضرورت کو پیدا و ہویدا کر دیا تھا اور ساری کی ساری دنیا یک زبان ہو کر زبان حال سے کسی ہادی اور ہدایت کی خواہش کا اظہار کر رہی تھی۔ چنانچہ خدائے تعالیٰ نے اس کامل ہادی اور ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور پیدائش کے لیے ملک عرب کا انتخاب کیا اور ربع مسکون کی اس تاریک شب کے ختم کرنے کے لیے مکہ معظمہ سے آفتاب رسالت طلوع ہوا اور اس نے طلوع ہو کر تمام دنیا کو اپنی نورانی شعاعوں سے منور کر دیا۔ ہم کو اپنی کتاب اس طلوع آفتاب ہی سے شروع کرنی ہے، مگر اصل مدعا کے شروع کرنے سے پیشتر اس سوال کا جواب دینا مزید باقی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے لیے ملک عرب ہی کیوں پسند کیا گیا؟ اور دوسرے کسی ملک میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں نہ پیدا کیا گیا۔ عرب کا انتخاب: اس سوال کا سب سے زبردست نہایت مقعول اور مسکت جواب یہ ہے کہ نبی آخرالزماں خواہ کسی ملک میں پیدا ہو ہر حالت میں یہی اعتراض ہو سکتا ہے کیونکہ بہرحال وہ کسی ایک ہی ملک میں ہو گا اور دوسرے ممالک اس کی پیدائش و وجود سے محروم رہیں گے، پس جب کہ یہ صورت بہرحال شدنی ہے تو معترض کے لیے اعتراض کا کوئی حق باقی نہیں ۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے تمام مشہور ممالک کسی نہ کسی قدیم زمانہ میں ایک مرتبہ ضرور ترقی یافتہ اور عروج کی حالت میں رہ چکے تھے، ان کی تہذیب و تمدن، اخلاق و علوم وغیرہ ایسی حالت کو دیکھ چکے تھے کہ انہوں نے قوس اناولاغیری دنیا کی قوموں کے سامنے بجایا تھا، نیز ہر ملک کو دوسرے ملک کا حاکم یا محکوم بننے کا موقع مل چکا تھا پھر یہ کہ دنیا کے کسی دوسرے ملک کی زبان اس زمانہ میں ایسی مکمل اور ادائے بیان پر قادر نہ تھی جیسی کہ عرب کی زبان عرب کے جغرافیائی حالات اور باشندوں کی بے شغلی کے سبب مکمل ہو چکی تھی۔ اگر عرب کے سوا کسی دوسرے ملک میں وہ کامل نبی مبعوث ہوتا تو اس ملک کے باشندے یعنی اوّل مخاطبین چونکہ پہلے دوسرے ملکوں پر قابض و متصرف رہ چکے تھے لہٰذا اس نبی کی ہدایت اور ہدایت نامے کا قوی اثر اپنی پوری اور حقیقی شان دنیا پر ثابت نہ کر سکتا اور اس کا ایک بڑا حصہ اس ملک کی قدیم روایات کی طرف منسوب ہو جاتا۔ اس نبی کے ذریعہ تہذیب اخلاق اور تہذیب نفس کا جو عظیم الشان کام انجام پانے والا تھا وہ بھی اس ملک و قوم کی قدیمی روایات سے منسوب ہو کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم اور خاتم الکتب صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلال کا ظاہر اور ثابت کرنے والا نہ ہوتا۔ کامل ہدایت نامہ کے لیے ضرورت تھی کہ وہ ایسی زبان میں نازل ہو جو دنیا کی زبانوں میں حد کمال کو پہنچ چکی ہو، عربی کے سوا کوئی دوسری