کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 869
سفاح کوفہ میں خلیفہ ہو کر ہر ایک اہم معاملہ میں ابومسلم کا مشورہ طلب کرتا تھا اور جیسے ابومسلم لکھتا تھا اسی کے موافق عمل درآمد کرتا تھا۔
یہ زمانہ تمام عالم اسلامی میں بڑا نازک اور خطرناک زمانہ تھا، ہر ایک ملک اور ہر ایک صوبہ میں جابجا لڑائیاں اور فسادات برپا تھے، واسط میں ابن ہبیرہ کو مغلوب کرنا آسان نہ تھا، ادھر مروان بن محمد اموی خلیفہ شام میں موجود تھا، حجاز میں بھی طوائف الملوکی برپا تھی، مصر کی حالت بھی خراب تھی، اندلس میں عباسی تحریک کا کوئی مطلق اثر نہ تھا، جزیرہ و آرمینیا میں اموی سردار موجود تھے اور عباسیوں کے خلاف تحریک پر آمادہ ہوگئے تھے، خراسان بھی پورے طور پر قابو میں نہ آیا تھا، بصرہ میں بھی عباسی حکومت قائم نہ ہو سکتی تھی، حضر موت و یمامہ و یمن کی بھی یہی حالت تھی۔
عبداللہ سفاح کے خلیفہ ہوتے ہی آل ابی طالب یعنی علویوں میں جو اب تک شریک کار تھے ایک ہلچل سی پیدا ہو گئی تھی اور وہ اس نتیجہ پر حیران اور ناراض تھے کیونکہ ان کو اپنی خلافت کی توقع تھی، عباسیوں کی اس کامیابی میں سب سے بڑا دخل محمد بن حنفیہ کے بیٹے ابوہشام عبداللہ کی اس وصیت کو ہے جو انہوں نے مرتے وقت محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس کے حق میں کی تھی، اس وصیت کی وجہ سے شیعوں کے فرقہ کیسانیہ کا یہ عقیدہ قائم ہوا کہ سیّدنا علی ابی طالب کے بعد محمد بن حنفیہ امام تھے، ان کے بعد ان کے بیٹے ابوہشام عبداللہ امام ہوئے، ان کے بعد محمد بن علی عباسی ان کے جانشین اور امام تھے، اس طرح شیعوں کی ایک بڑی جماعت شیعوں سے کٹ کر عباسیوں میں شامل ہو گئی اور علویوں یا فاطمیوں کو کوئی موقع عباسیوں کے خلاف کھڑے ہونے کا نہ مل سکا، وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا کر رہ گئے۔
جب مروان بن محمد آخری اموی خلیفہ مارا گیا تو حبیب بن مرہ حاکم بلقاء نے عبداللہ سفاح کے خلاف خروج کیا اور سفید جھنڈے لے کر نکلا، ادھر عامل قنسرین بھی اٹھ کھڑا ہوا حالانکہ اس سے پہلے وہ عبداللہ بن علی عباسی کے ہاتھ پر بیعت کر چکا تھا، اہل حمص بھی اس کے شریک ہو گئے، ادھر آرمینیا کے گورنر اسحاق بن مسلم عقیلی نے عباسیوں کے خلاف خروج کیا، ان تمام بغاوتوں کو فرو کرنے کے لیے عبداللہ سفاح نے اپنے سرداروں اور رشتہ داروں کو بھیجا اور بتدریج کامیابی حاصل کی، لیکن یزید بن عمر بن ہبیرہ ابھی تک واسط پر قابض و متصرف تھا اور کوئی سردار اس کو مغلوب و مفتوح نہ کر سکا تھا، آخر مجبور ہو کر یزید بن عمر بن ہبیرہ سے ابوجعفر منصور اور عبداللہ سفاح نے جا کر صلح کی اور یزید بن عمر بیعت پر آمادہ ہوا لیکن ابو مسلم نے خراسان سے عبداللہ بن سفاح کو لکھا کہ یزید بن عمر کا وجود بے حد خطرناک ہے اس کو قتل کر دو، چنانچہ دھوکا سے منصور عباسی نے اس کو قتل کرا دیا اور اس خطرہ سے نجات حاصل کی۔