کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 865
گیا، بیمار ہوتے ہی رے سے کوچ کر دیا، مقام سادہ میں پہنچا تھا کہ ۱۲ربیع الاول ۱۳۱ھ کو فوت ہو گیا اس کے ہمراہی اس کی وفات کے بعد ہمدان چلے گئے۔ رے کا عامل حبیب بن یزید نہشلی تھا، نصر کی وفات کے بعد جب قحطبہ بن شبیب جرجان سے فوج لے کر رے کی طرف آیا تو حبیب بن یزید اور اہل شام جو اس کے پاس موجود تھے، بلامقابلہ رے چھوڑ کر چل دیئے، قحطبہ نے رے پر قبضہ کیا اور اہل رے کے اموال و اسباب ضبط کیے، رے کے اکثر مفرور ہمدان چلے گئے۔ قحطبہ نے رے سے ہمدان کی طرف اپنے بیٹے حسن کو روانہ کیا لیکن یہ لوگ ہمدان چھوڑ کر نہاوند کی جانب چلے گئے، حسن نے نہاوند پہنچ کر نہایت مضبوطی سے محاصرہ ڈال دیا۔ یزید بن عمر بن ہبیرہ نے ۱۲۹ھ میں اپنے بیٹے داؤد بن یزید کو عبداللہ بن معاویہ سے لڑنے کو بھیجا تھا اور داؤد بن یزید کرمان تک ان کا مقابلہ کرتا ہوا چلا گیا تھا، داؤد کے ساتھ عامر بن صبارہ بھی تھا، یہ دونوں کرمان میں پچاس ہزار کی جمعیت سے مقیم تھے۔ جب یزید بن عمر بن ہبیرہ کو نباتہ بن حنظلہ کے مارے جانے کا حال معلوم ہوا تو اس نے داؤد اور ابن صبارہ کو لکھا کہ تم قحطبہ کے مقابلہ کو بڑھو، یہ دونوں پچاس ہزار فوج کے ساتھ کرمان سے روانہ ہوئے اور اصفہان جا پہنچے، قحطبہ نے ان کے مقابلہ کے لیے مقاتل بن حکیم کہبعی کو مامور کیا، اس نے مقام قم میں قیام کیا۔ ابن صبارہ نے یہ سن کر کہ حسن بن قحطبہ نے نہاوند کا محاصرہ کر رکھا ہے، نہاوند کے بچانے کا ارادہ کیا اور اس طرف روانہ ہوا اور مقاتل سے مل کر اور اس کو ہمراہ لے کر ابن صبارہ قحطبہ کے مقابلہ کو روانہ ہوا جب دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا تو قحطبہ کے ہمراہیوں نے ایسی جاں بازی سے حملہ کیا کہ ابن صبارہ کے لشکر کو ہزیمت ہوئی اور وہ خود بھی مارا گیا۔ یہ واقعہ ماہ رجب ۱۳۱ھ کا ہے۔ قحطبہ نے اس فتح کی خوشخبری اپنے بیٹے حسن کے پاس کہلا بھجوائی اور خود اصفہان میں بیس روز قیام کیا، پھر حسن کے پاس آکر محاصرہ میں شریک ہو گیا، تین مہینے تک اہل نہاوند محاصرہ میں رہے، آخر نہاوند فتح ہو گیا اور بہت سے آدمی اہل نہاوند کے قتل کیے گئے، اس کے بعد قحطبہ نے حسن کو حلوان کی طرف روانہ کیا، حلوان بآسانی قبضہ میں آگیا، پھر قحطبہ نے ابوعون عبدالملک بن یزید خراسانی کو شہر زور پر حملہ کرنے کو بھیجا، یہاں کا عامل عثمان بن سفیان تھا، اس کے مقدمۃالجیش پر عبداللہ بن مروان بن محمد تھا، ابوعون اور عثمان کی آخری ذی الحجہ تک لڑائی ہوتی رہی، آخر عثمان مارا گیا، اس کی فوج کو شکست ہوئی، ابو عون عبدالملک نے بلاد موصل پر قبضہ کر لیا۔