کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 862
لگیں ، آخر علی بن کرمانی اور ابومسلم نے نصر بن سیار اور شیبان خارجی کو شکست دیکر مرو پر مستقل قبضہ کر لیا، ابومسلم نے مرو کے دارالامارۃ میں جا کر لوگوں سے بیعت لی اور خطبہ دیا، نصر مرو سے شکست خوردہ سرخس اور طوس ہوتا ہوا نیشاپور میں آکر مقیم ہوا اور علی بن کرمانی ابومسلم کے ساتھ ساتھ رہنے لگا اور ہاں میں ہاں ملاتا رہا، شیبان خارجی جو مرو کے قریب ہی شکست خوردہ قیام پذیر تھا اس کے پاس ابومسلم نے پیغام بھیجا کہ تم بیعت کر لو، اس نے جواب میں کہلا بھجوایا کہ تم ہی میری بیعت کر لو، اس کے بعد شیبان خارجی سرخس چلا گیا اور ایک گروہ بکر بن وائل کا اپنے گرد جمع کر لیا، یہ سن کر ابومسلم نے ایک دستہ فوج سرخس کی طرف روانہ کیا، وہاں لڑائی ہوئی اور شیبان خارجی مارا گیا۔ اس کے بعد ابومسلم نے اپنے نقیبوں میں سے موسیٰ بن کعب کو ابیورو کی طرف اور ابوداؤد خالد بن ابراہیم کو بلخ کی جانب بھیجا، دونوں کو کامیابی ہوئی، ابیورد اور بلخ پر جب قبضہ ہو گیا تو ابومسلم نے ابو داؤد کو تو بلا بھیجا اور یحییٰ بن نعیم کو بلخ کا حاکم مقرر کر کے بھیج دیا۔ زیاد بن عبدالرحمن قسری نے جو حکومت بنو امیہ کی طرف سے بلخ کا عامل تھا اور ابوداؤد سے شکست کھا کر ترمذ چلا گیا تھا۔ یحییٰ ابن نعیم سے خط و کتابت کر کے اس کو اپنا ہم خیال بنا لیا اور مسلم بن عبدالرحمن باہلی اور عیسیٰ بن زرہ سلمیٰ، ملوک طخارستان ، ملوک ماوراء النہر اور اہل بلخ و اہل ترمذ سب کو مجتمع کر کے اور یحییٰ بن نعیم کو مع اس کے ہمراہیوں کے ہمراہ لے کر ابومسلم کی جنگ کے لیے روانہ ہوئے، سب نے متفق ہو کر سیاہ پھریرے والوں (دعاۃ بنوعباس) سے لڑنے کی قسمیں کھائیں اور مقاتل بن حیان نبطی کو اپنا شریک لشکر بنایا۔ ابومسلم نے یہ کیفیت سن کر ابو داؤد کو دوبارہ بلخ کی جانب روانہ کیا،بلخ سے تھوڑے فاصلہ پر فریقین کا مقابلہ دریا کے کنارے ہوا، مقابل بن حیان نبطی کے ساتھ سردار ابوسعید قرشی تھا، ساقہ فوج کا پچھلا حصہ ہوتا ہے، اس حصہ کو مسلح اور زبردست اس لیے رکھا تھا کہ کہیں حریف دھوکا دے کر پیچھے سے حملہ نہ کرے، جب لڑائی خوب زور شور سے شروع ہو گئی تو ابوسعید قرشی نے بھی اپنی متعلقہ فوج سے دشمنوں کا مقابلہ کرنا اور ان کو مار کر پیچھے بھگانا ضروری سمجھا، اتفاقاً ابوسعید کا جھنڈا بھی سیاہ تھا، وہ جب اپنی فوج لے کر متحرک ہوا تو لڑنے والے اگلی صفوں کے لوگ یہ بھول گئے کہ ہمارا بھی ایک جھنڈا سیاہ ہے، وہ ابوسعید کے جھنڈے کو دیکھتے ہی یہ سمجھے کہ دشمنوں کی فوج نے پیچھے سے ہم پر زبردست حملہ کیا ہے اور یہ ان ہی کی فوج فاتحانہ پیچھے سے بڑھتی چلی آتی ہے، چنانچہ ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے، بہت سے دریا میں غرق ہو کر ہلاک ہوئے، زیاد و یحییٰ ترمذ کی طرف چلے گئے اور ابوداؤد نے بلخ پر