کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 858
سے نفرت تھی یا قید ہونے کے بعد لازماً نفرت پیدا ہو جانی چاہئے تھی، ان ہی میں بعض ایسے قیدی بھی تھے جو واقعی بنوعباس یا بنو فاطمہ کے نقیب تھے، لہٰذا ان لوگوں کی باتیں سن کر ابومسلم کے قلب پر بہت اثر ہوا اور وہ بہت جلد ان لوگوں کا ہمدرد بن کر ان کی نگاہوں میں اپنا اعتبار قائم کر سکا، اتفاقاً قحطبہ بن شبیب جو امام ابراہیم کی طرف سے خراسان میں کام کرتا اور لوگوں کو خلافت عباسیہ کے لیے دعوت دیتا تھا خراسان سے حمیمہ کی طرف جا رہا تھا، راستے میں کوفہ کے ان قیدیوں سے بھی ملا، یہاں اسے معلوم ہوا کہ عیسیٰ و عاصم وغیرہ کا خادم ابومسلم بہت ہوشیار اور جوہر قابل ہے، اس نے عیسیٰ سے ابومسلم کو مانگ لیا اور اپنے ساتھ لے کر حمیمہ کی طرف روانہ ہو گیا، وہاں امام ابراہیم رحمہ اللہ کی خدمت میں ابومسلم کو پیش کیا، امام ابراہیم نے ابومسلم سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے، ابومسلم نے کہا کہ میرا نام ابراہیم بن عثمان بن بشار ہے، امام ابراہیم نے کہا نہیں تمہارا نام عبدالرحمن ہے، چنانچہ اس روز سے ابومسلم کا نام عبدالرحمن ہو گیا، امام ابراہیم ہی نے اس کی کنیت ابومسلم رکھی اور قحطبہ بن شبیب سے مانگ لیا۔ چند روز تک ابومسلم امام ابراہیم کی خدمت میں رہا اور انہوں نے اچھی طرح ابومسلم کی فطرت و استعداد کا مطالعہ کیا، اس کے بعد اپنے مشہور نقیب ابونجم عمران بن اسماعیل کی لڑکی سے اس کا عقد کر دیا، ابونجم عمران بن اسماعیل ان لوگوں میں سے تھا، جو خلافت اسلامیہ کو اولاد علی میں لانا چاہتے تھے، اس عقد سے یہ فائدہ حاصل کرنا مقصود تھا کہ ابومسلم کو شیعان علی کی حمایت حاصل رہے اور اس کی طاقت کمزور نہ ہونے پائے، اس انتظام و اہتمام کے بعد امام ابراہیم نے ابومسلم کو خراسان کی طرف روانہ کیا اور تمام دعاۃ و نقباء کو اطلاع دی کہ ہم ابومسلم کو خراسان کے تمام علاقے کا مہتمم بنا کر روانہ کیا ہے، سب کو دعوت بنوہاشم کے کام میں ابومسلم کی فرماں برداری کرنی چاہئے۔ خراسان کے مشہور اور کار گزار نقباء جو محمد بن علی عباسی یعنی امام ابراہیم کے باپ کے زمانہ سے کام کر رہے تھے یہ تھے،سلیمان بن کثیر، مالک بن ہیثم، زیاد بن صالح، طلحہ بن زریق، عمر بن اعین یہ پانچوں شخص قبیلہ خزاعہ کے تھے۔ قحطبہ بن شبیب بن خالد بن سعدان یہ قبیلہ طے سے تعلق رکھتا تھا، ابوعینیہ، موسیٰ بن کعب لاہز بن قریط، قاسم بن مجاشع، اسلم بن سلام یہ چاروں تمیمی تھے، ابوداؤد خالد بن ابراہیم شیبانی ابوعلی ہردی (اسی کو شبل بن طہمان بھی کہتے تھے) اور ابوالنجم عمران بن اسماعیل۔ جب ابومسلم خراسان میں پہنچا تو سلیمان بن کثیر نے اسکو نوعمر ہونے کی وجہ سے واپس کر دیا یہ تمام نقباس رسیدہ اور پختہ عمر کے تجربہ کار لوگ تھے، انہوں نے ایک نوعمر شخص کو اپنی خفیہ کارروائیوں اور رازداری کے خفیہ کاموں کا افسر و مہتمم بنانا خلاف مصلحت سمجھا۔