کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 851
بنو امیہ پہ ختم ہو گئی، اس کے بعد صرف ملک داری باقی رہی، بنوامیہ کے بعد اسلامی حکومت کا مرکز بھی ایک نہیں رہا بلکہ ایک سے زیادہ الگ الگ حکومتیں قائم ہونے لگیں جن میں خلافت عباسیہ سب سے بڑی حکومت تھی۔ (۷)…بنوامیہ کے عہد خلافت میں عربوں کی حیثیت ایک فاتح قوم کی رہی، عربی اخلاق، عربی زبان، عربی تمدن، عربی مراسم سب پر غالب و فائق تھے، لیکن بنوامیہ کے بعد عجمیوں اور دوسری مفتوح قوموں کو یہ مرتبہ حاصل ہونے لگا کہ وہ عربوں پر حکومت کریں اور عربوں کی کسی فضیلت و خصوصیت میں فاتحانہ عظمت کو تسلیم نہ کریں ۔ (۸)…عہد بنوامیہ میں اگرچہ خارجی، شیعہ اور بعض دوسرے گروہ پیدا ہو گئے تھے لیکن سب کا عمود مذہب اور مداراستدلال قرآن و حدیث کے سوا اور کچھ نہ تھا، کتاب و سنت کے سوا کسی تیسری چیز کو قاضی نہ سمجھتے تھے، لیکن بعد میں ایسے بہت سے فرقے مسلمانوں میں پیدا ہونے لگے جنہوں نے کتاب و سنت کو پس پشت ڈال کر اپنے پیروں ، مرشدوں ، اماموں اور صاحب گروہ علماء کے اقوال و اجتہاد کی پیروی کو کافی سمجھا، یہی وجہ تھی کہ خلافت بنوامیہ کے زمانہ میں مسلمانوں کی تمام تر توجہ قرآن مجید اور سنت رسول اللہ کی طرف منعطف رہی اس کے بعد قرآن مجید کی طرف سے مسلمانوں نے کم التفاتی و غفلت کا برتاؤ شروع کیا اور یہ نحوست یہاں تک ترقی پزیر ہوئی کہ آج ہمارے زمانہ میں ایک واعظ اور ایک فارغ التحصیل مولوی کے لیے بھی یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ وہ قرآن مجید کو ترتیل و تدبر کے ساتھ پڑھ اور سمجھ چکا ہو۔ (۹)…خلافت راشدہ میں اعلیٰ درجہ کی کامیابی اور فتح یہ سمجھی جاتی تھی کہ لوگ شرک و گمراہی سے نجات پاکر توحید اور عبادت الٰہی کی طرف متوجہ ہو جائیں اور مذہب اسلام لوگوں کا دستورالعمل زندگی بن جائے، مال و دولت اور مادی شان و شوکت کی کوئی قدر و قیمت اور عزت و وقعت نہ تھی، لیکن خلافت بنوامیہ میں مال و دولت اور شان و شوکت کو کامیابی سمجھا جانے لگا اور بیت المال کا روپیہ ان لوگوں کے لیے زیادہ صرف ہونے لگا، جو خلافت و سلطنت یعنی خاندان بنی امیہ کے لیے موجب تقویت اور مفید ثابت ہو سکتے تھے جن لوگوں سے بنوامیہ کو کسی امداد و اعانت کی توقع نہ ہوتی تھی یا جن کا خوش رکھنا وہ اپنے لیے ضروری نہ سمجھتے تھے، ان کی طرف سے بے التفاتی برتی جاتی تھی اور ان کے حقوق ان کو نہ ملتے تھے، یہ رسم بد بعد کی خلافتوں میں اور بھی زیادہ ترقی کر گئی تھی، اسی نسبت سے عام طور پر مسلمانوں میں اغراض پرستی اور باہمی رقابت بڑھتی چلی گئی