کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 848
گرفتار کر کے مہدی کے دربار میں بھیج دیا اور اس نے اس کو قید کر دیا۔ مروان بن محمد کا عہد خلافت: مروان بن محمد بنوامیہ کا آخری خلیفہ ہے، اس لیے عام طور پر خلافت بنو امیہ کی بربادی و تباہی کا ذمہ دار اسی کو سمجھا جاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ بنوامیہ کی بربادی کے سامان اس کی خلافت سے پہلے ہی اس کے پیش روؤں کی غفلت سے مرتب و مہیا ہو چکے تھے، مروان کی خلافت کا زمانہ کچھ عرصہ کم ۶ سال ہے، اس مدت میں مروان کو ایک روز بھی چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ اس نے اپنا تمام عہد خلافت گھوڑے کی پشت پر ہی بسر کیا، اس کی جفاکشی و بہادری اور اس کے عزم و استقلال کا صحیح اندازہ اس لیے بھی نہیں ہو سکا کہ اس کے ہاتھ میں ایک ایسی سلطنت دی گئی تھی، جو ناقابل علاج امراض میں مبتلا تھی، مروان اگر چند روز پہلے تخت خلافت پر بیٹھتا تو یقینا وہ دولت امویہ کی بربادی کو ایک طویل زمانہ کے لیے پیچھے ڈال دیتا، مگر موجودہ خرابیوں اور بنو عباس کی سازشوں پر غالب نہ آ سکا، مروان کوئی ایسا غیر معمولی عالی دماغ اور عقلمند بھی نہ تھا کہ کسی قریب المرگ سلطنت میں ازسر نو جان ڈال سکتا، اس کا تمام زمانہ جھگڑوں اور لڑائیوں ہی میں گزر گیا، اس کے عہد خلافت میں عالم اسلام کے اندر ہر طرف تلواریں چمکتی ہوئی نظر آتی تھیں ، کسی کو اطمینان حاصل نہ تھا، کفار پر جہاد کرنے کا تو موقع ہی میسر نہ تھا، اس زمانہ میں مسلمانوں کا خون مسلمانوں کے ہاتھوں سے جس قدر بہایا گیا اس کی نظیر بہت ہی کم کسی زمانے میں مل سکتی ہے۔ مروان ۷۰ھ یا ۷۲ھ میں جب کہ اس کا باپ محمد بن مروان جزیرہ کا گورنر تھا پیدا ہوا تھا، مروان کی ماں کردستان کی ایک پرستار تھی جو ابراہیم اشتر کے پاس تھی، ابراہیم اشتر کے قتل کے بعد محمد بن مروان نے اس کو لے لیا اسی کے پیٹ سے مروان پیدا ہوا تھا۔ خلافت بنوامیہ پر ایک نظر: (۱) …سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے نصف آخر سے جو اندرونی خرخشے اور خفیہ سازشیں شروع ہوئیں ان کا ایک ابتدائی حصہ اس نتیجہ پر ختم ہوا کہ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ تسلیم کیے گئے اور خلافت بنوامیہ کی بنیاد رکھی گئی، خلافت کی ابتداء ہی میں اس کی ہلاکت و بربادی اور عالم اسلام کی بدنصیبی کا سب سے بڑا کام بانی خلافت بنوامیہ یعنی سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں یہ پیدا ہوا کہ انہوں نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنایا، یہ ولی عہدی کی وبا ایسی شروع ہوئی کہ اس نے آج تک مسلمانوں کا پیچھا نہیں چھوڑا، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اسی عمل کا نتیجہ تھا کہ وہ خوش گوار اور نافع نوع انسانی جمہوریت جو