کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 846
لشکر کو شکست دے سکتی تھی لیکن عین معرکۂ جنگ میں جب کہ مروان بن محمد عبداللہ بن علی کی فوج کے اکثر حصے کو شکست دے کر بھگا چکا تھا اور فتح میں کوئی کسر باقی نہ رہ گئی تھی، مروان کی فوج کے اکثر حصے نے لڑنے اور حملہ کرنے سے انکار کر دیا، گویا وہ مروان بن محمد کو شکست ہی دلانا چاہتے تھے۔
عبداللہ بن علی نے اپنے آپ کو شکست خوردہ دیکھ کر اور اپنی جان پر کھیل کر اپنے مخصوص ہمرائیوں کے ساتھ حملہ کیا، مگر مروان کی طرف سے ان کی مدافعت میں کوئی سردار نہ بڑھا، مروان نے ان کو انعام و اکرام کا لالچ دیا، جب یوں بھی کام نہ چلا تو جس قدر خزانہ اس کے ہمراہ تھا وہ سب مروان نے میدان میں ڈلوا دیا اور کہا کہ حملہ کرو اور کمزور دشمن کو مار کر یہ تمام خزانہ آپس میں تقسیم کرلو، یہ دیکھ کر لشکر اس خزانہ کے لوٹنے میں مصروف ہو گیا اور جو لوگ ابھی تک لڑ رہے تھے وہ بھی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہو گئے، اس بد نظمی و افراتفری کو دیکھ کر مروان نے اپنے بیٹے عبداللہ کو بھیجا کہ لوگوں کو اس حرکت سے روکے، اس کے پہنچتے ہی سب کے سب میدان سے بھاگنے لگے اور مروان کو چند ہمراہیوں کے ساتھ تنہا چھوڑ کر چل دیئے۔
مروان اپنے لشکر کی اس بیوفائی سے مجبور ہو کر میدان سے بھاگا اور موصل پہنچا، وہاں لوگوں نے مروان پر اس شکست کی وجہ سے آوازے کسے، وہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھ کر مقام حران کی طرف آیا، جہاں اس کا بھتیجا ابان بن یزید بن محمد عامل تھا، نہرزاب کے کنارے یوم شنبہ ۱۱ جمادی الثانی ۱۳۰ھ کو مروان بن محمد نے شکست کھائی تھی،مقام حران میں مروان صرف بیس ہی روز قیام کرنے پایا تھا کہ عبداللہ بن علی کے آنے کی خبر سنی۔
مروان وہاں سے حمص کی طرف روانہ ہوا، جب عبداللہ بن علی حران کے قریب پہنچا، تو حران کا عامل ابان بن یزید بن محمد سیاہ کپڑے پہن کر اور سیاہ جھنڈا لے کر اس کے استقبال کو نکلا اور اس کے ہاتھ پر سفاح کی خلافت کی بیعت کرلی، عبداللہ بن علی نے اس کو امان دے دی۔
مروان حمص پہنچا، تو وہاں کے لوگوں نے اوّل تو فرماں برداری و عقیدت کا اظہار کیا، لیکن مروان کے ہمراہیوں کو کم دیکھ کر سرکشی اور مقابلہ پر آمادہ ہوئے، مروان وہاں سے تین دن کے بعد ہی چل دیا، لیکن اہل حمص نے اس کے مال و اسباب کے چھیننے کا ارادہ کیا، مروان نے ان کو اوّل سمجھایا، لیکن جب وہ باز نہ آئے تو مقابلہ پر آمادہ ہو کر ان کو مار کر بھگا دیا۔
حمص سے مروان دمشق میں پہنچا، یہاں کا عامل اس کا چچازاد بھائی ولید بن معاویہ بن مروان بن حکم تھا، یہاں بھی قیام مناسب نہ سمجھ کر اور ولید بن معاویہ کو مخالفین دولت امویہ سے لڑنے کی ترغیب