کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 842
دس مہینے حمص کا محاصرہ جاری رہا، اسی (۸۰) منجنیقیں برابر مصروف سنگ باری تھیں ، مجبور ہو کر اہل حمص نے امان طلب کی اور سلیمان تدمر کی طرف چلا گیا، یہاں سے فارغ ہو کر مروان کوفہ کی طرف ضحاک خارجی سے جنگ کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ یزید عمر بن ہبیرہ نے کوفہ کی طرف بڑھ کر ضحاک خارجی کے لشکر کو شکست دی، ضحاک نے دوبارہ لشکر مرتب کیا، یزید بن عمر نے دوبارہ اس کو شکست دی اور کوفہ میں داخل ہوا، خارجیوں نے کئی مرتبہ خروج کیا مگر ہر مرتبہ ان کو شکست حاصل ہوئی، یزید بن عمر بن ہبیرہ نے عراق پر قابض و متصرف ہو کر اپنی طرف سے نصر بن سیار کو خراسان کی گورنری پر قائم رکھا، اس نے مروان بن محمد کی بیعت کر لی۔ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے، خراسان میں حرث بن شریح موجود تھا اور اس کے گروہ میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا، حرث بن شریح کو یہ بھی خیال ہوا کہ مجھ کو یزید بن ولید نے امان دے دی تھی، مروان بن محمد نے تو امان نہیں دی، ادھر عبداللہ بن عبدالعزیز گورنر کوفہ نے بھی امان دی تھی، لیکن یزید بن عمر بن ہبیرہ موجودہ گورنر کوفہ نے امان نہیں دی، لہٰذا حرث بن شریح نے مخالفت کا اعلان کیا، نصر بن سیار نے اس کو بہت سمجھایا، لیکن وہ نہ مانا، بالآخر نوبت لڑائی تک پہنچی خاص شہر مرو کی گلیوں میں جنگ و پیکار کے شعلے بلند ہوئے۔ ادھر کرمانی بھی کرمان میں کافی قوت حاصل کر چکا تھا، نصر بن سیار نے کرمانی کو بلوایا، لیکن اس کا بھی دل صاف نہ ہوا اور اعلانیہ مخالفت پر آمادہ ہو گیا، غرض مرو میں کرمانی، حرث، نصر تین شخص جمع ہو گئے، تینوں کی طاقت مساوی تھی اور تینوں اپنے الگ الگ مقاصد و اغراض رکھتے تھے، کوئی کسی کا ہمدرد یا شریک نہ تھا، آخر حرث و کرمانی دونوں نے متفق ہو کر نصر بن سیار کو ہزیمت دیکر مرو سے نکال دیا اور چند روز کے بعد دونوں آپس میں لڑے، اس لڑائی میں حرث بن شریح مارا گیا اور کرمانی مرو پر قابض و متصرف ہوا یہ ۱۲۸ھ کا واقعہ ہے۔ جب حرث بن شریح مارا گیا تو نصر نے اپنی جمعیت فراہم کر کے کرمانی کے مقابلے پر یکے بعد دیگرے فوجیں بھیجنی شروع کیں ، لڑائیاں ہوئیں اور قریباً ہر ایک معرکہ میں نصر کے سرداروں کو کرمانی کے مقابلے میں شکست ہوئی، آخر نصر بن سیار خود بڑی جمعیت لے کر مرو پہنچا، طرفین سے مورچے قائم ہوئے اور لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا، یہ لڑائیاں ابھی جاری تھیں اور کوئی فریق غالب یا مغلوب نہ ہونے پایا تھا کہ مسلم خراسانی نے جس کا بیان مفصل آگے آتا ہے اس موقع کو بہت غنیمت سمجھا اور اپنی جمعیت کو فراہم کر کے ادھر نصر سے خط و کتابت جاری کی اور ادھر کرمانی سے نصر کو لکھا کہ امام ابراہیم نے تمہارے