کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 833
عہد بنوامیہ میں صوبوں کی تقسیم اس جگہ یہ بات سمجھا دینی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ عہد بنوامیہ میں کل ممالک اسلامی چند صوبوں میں تقسیم تھے، ہر صوبہ پر ایک امیر یا وائسرائے یا نائب سلطنت مقرر ہوتا تھا، اس کو اپنے صوبہ میں کامل شاہانہ اختیارات حاصل ہوتے تھے اور وہ خود ہی اپنی طرف سے اپنے صوبہ کی ولایتوں میں حاکم مقرر کرتا تھا، بڑے بڑے صوبے حجاز وعراق، جزیرہ، وآرمینیا، شام، مصر، افریقہ، اندلس، خراسان وغیرہ تھے۔ حجاز کے صوبہ میں مکہ، مدینہ، طائف، یمن کی ولایتیں شامل تھیں ، کبھی ایسا ہوتا تھا کہ یمن کو حجاز کی ماتحتی سے نکال کر ایک الگ صوبہ قرار دے دیا جاتا تھا اور وہاں کا حاکم دارالخلافہ سے مقرر ہوتا تھا۔ شام کے صوبہ میں اردن، حمص، دمشق، قنسرین کی ولایتیں شامل تھیں ۔ مصر کے صوبہ میں کبھی افریقہ بھی شامل ہوتا تھا اور کبھی افریقہ کو مصر سے الگ صوبہ قرار دے کر قیروان کا گورنر دربار خلافت سے مقرر کیا جاتا تھا۔ اسی طرح اندلس کبھی الگ صوبہ قرار دیا جاتا تھا اور وہاں کا حاکم خلیفہ خود مقرر کرتا تھا اور کبھی اندلس کو قیروان کے امیر کے ماتحت کر کے صوبہ افریقہ میں شامل کر دیا جاتا تھا، اس حالت میں قیروان کا امیر خود اپنے اختیار سے اندلس میں کسی کو حاکم مقرر کرتا تھا۔ یہی کیفیت عراق وخراسان کی تھی، یعنی خراسان کبھی ایک الگ صوبہ ہوتا تھا اور وہاں کا گورنر یا امیر دربار خلافت سے مقرر ہوتا تھا اور کبھی خراسان کو صوبۂ عراق میں شامل کر دیا جاتا تھا، اس حالت میں خراسان کا حاکم گورنر عراق کی طرف سے مقرر کیا جاتا تھا۔ صوبوں کے امیروں اور ولایتوں کے والیوں کو اپنے متعلقہ ملکوں میں سیاہ وسفید کے کامل اختیارات حاصل ہوتے تھے، لیکن کبھی کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ محکمۂ مال کی افسری یعنی وصولی خراج وجزیہ کے لیے دربار خلافت سے الگ کوئی اہل کار مقرر ہو جاتا تھا، دربار خلافت سے مقرر شدہ افسر مال اپنے آپ کو صوبہ یا ولایت کے حاکم کا ماتحت نہیں سمجھتا تھا، لیکن فوج کا سپہ سالار اور ملک کے امن و امان کا ذمہ دار ہمیشہ اس صوبہ کا امیر یا اس ولایت کا والی ہی ہوتا تھا۔ افسر مال کی طرح کبھی کبھی صوبہ کا امیر شریعت یا قاضیٔ اعظم بھی دربار خلافت سے مقرر ہو کر جاتا تھا، لیکن نمازوں کا امام ہمیشہ امیر یا گورنر ہی ہوتا تھا، یعنی نمازوں کی امامت اور سپہ سالاری لازم وملزوم