کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 832
اندیش امیروں اور سرداروں کی مخالفت نے ہشام کو اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہونے دیا اور ولید بن یزید ہشام بن عبدالملک کے بعد تخت نشین ہوا، ولید بن یزید کا عہد خلافت بنوامیہ کی تباہی وبربادی کا دروازہ کھلنا تھا۔ ولید بن یزید نے تخت خلافت پر بیٹھتے ہی ان لوگوں سے جن کو وہ اپنا مخالف سمجھتا تھا انتقام لینا شروع کیا، کسی کا وظیفہ بند کیا، کسی کو قید کیا، کسی کو قتل کرایا، سلیمان بن ہشام اپنے چچا زاد بھائی کو پکڑ کر کوڑوں سے پٹوایا اور داڑھی منڈوا کر تشہیر کرایا، یزید بن ہشام اور ولید بن عبدالملک کے کئی بیٹوں کو قید کر دیا۔ غرض تخت نشین ہوکر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے اکثر اہل خاندان کو اپنا دشمن بنایا، پھر ہشام بن اسماعیل مخزومی والی مدینہ کے لڑکوں اور خالد بن عبداللہ قسری سابق گورنر عراق کو پکڑ کر یوسف بن عمر والی عراق کے سپرد کیا، اس نے ان شرفاء کو نہایت سخت اذیتیں دے دے کر مار ڈالا۔ اپنی خلافت کے پہلے ہی سال یعنی ۱۲۵ھ میں ولید بن یزید نے اپنے بیٹوں عثمان وحکم کے لیے ولی عہدی کی بیعت لوگوں سے لی، اگرچہ بیعت ولی عہدی کی رسم پہلے سے جاری تھی اور لوگ ایسی بیعت کے عادی ہوچکے تھے، لیکن ان لڑکوں کی بیعت کسی نے شرح صدر کے ساتھ نہیں کی، لہٰذا اور بھی دلوں میں انقباض پیدا ہوا۔ ولید بن یزید بن عبدالملک نے صرف مذکورہ غلط کاریوں ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے اپنے عقائد اور آزاد مشربی کے اعلان واظہار سے اور بھی لوگوں کو برا فروختہ ہونے کا موقع دیا، چنانچہ وہ علانیہ اپنے ناشدنی عقائد وخیالات کی اشاعت کرتا تھا، مے نوشی اور زنا کے جرموں کا بھی اس سے ارتکاب ہوا، ان تمام باتوں کی شہرت نے صوبوں اور ولایتوں کے حاکموں کو بد دل کر دیا، جس نے بیعت اطاعت کی خوف اور ڈر کی وجہ سے کی اور سچی ہوا خواہی اور ہمدردی سب کے دلوں سے جاتی رہی۔ ۱۲۵ھ یعنی اپنی خلافت کے پہلے سال ہی صوبہ خراسان کو عراق کا ماتحت کر کے خراسان کے حاکم نصر بن سیار کو معزول کیا، نصر کے پاس ایک طرف ولید بن یزید کا اور دوسری طرف سے یوسف بن عمر گورنر عراق کا حکم پہنچا کہ تم معزول کیے گئے، فورا دارالخلافہ دمشق میں حاضر ہو کر اپنے صوبہ کا حساب کتاب سمجھاؤ۔