کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 830
اس کے بعد ۱۰۰ھ میں بعہد خلافت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز محمد بن علی عباسی نے اپنے کارندے عراق وخراسان وحجاز ویمن ومصر وغیرہ ممالک اسلامیہ کی طرف روانہ کیے، سیّدنا عمر بن عبدالعزیز نے اگرچہ بنوامیہ کی نسبت اس عداوت ونفرت کو جو اکثر لوگوں کے دلوں میں تھی بہت کم کر دیا تھا لیکن پھر بھی محمد بن علی کی تحریک برابر مصروف عمل رہی، چنانچہ محمد بن علی کی طرف سے میسرہ عراق میں اور ابومحمد صادق خراسان میں عباسیوں کی خلافت کے لیے برابر دعوت کا کام کرتے رہے، محمد بن علی نے مضافات بلقاء میں سکونت اختیار کر کے وہیں سے اپنی تحریک کو ممالک اسلامیہ میں شائع کیا، چند روز کے بعد اس نے اپنے بارہ نقیب مقرر کیے، ہر چہار سمت ممالک اسلامیہ میں بھیجے، ان لوگوں کو ہر جگہ کامیابی حاصل ہوئی۔
۱۰۲ھ اور بہ روایت دیگر ۱۰۴ھ میں ابومحمد صادق خراسانی وہاں کے چند بااثر لوگوں کو جنہوں نے اس دعوت کو قبول کر لیا تھا ہمراہ لے کر محمد بن علی کے پاس آیا، انھی ایام میں محمد بن علی اپنے اس لڑکے کو جس کی عمر صرف پندرہ یوم تھی لے کر آیا اور ان لوگوں سے کہا کہ یہی تمہارا سردار ہوگا (یہی لڑکا عبداللہ سفاح تھا،) اس کے بعد بکیر بن ماہان جو سندھ میں جنید کے ساتھ تھا وہاں سے کوفہ میں آیا اور ابومحمد صادق سے ملا اس نے بکیر کو دعوت دی اس نے فوراً قبول کر لیا، یہ ۱۰۵ھ کا واقعہ ہے۔
۱۰۷ھ میں بکیر بن ماہان نے جو کوفہ میں محمد بن علی کی جانب سے دعوت عراق وخراسان کا افسر ومہتمم تھا، ابوعکرمہ، ابومحمد صادق، محمد خنیں ، عمار عبادی وغیرہ چند شخصوں کو خراسان کی طرف خلافت عباسیہ کی دعوت کے لیے روانہ کیا، خراسان میں اسد قسری گورنر تھا اس کو اتفاقاً اس کا علم ہوگیا کہ چند آدمی خلافت عباسیہ کے لیے لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں ، اس نے سب کو گرفتار کرا کر قتل کرا دیا، صرف ایک شخص عمار بچ کر بھاگا اور بکیر بن ماہان کو آکر اطلاع دی، بکیر نے یہ کیفیت محمد بن علی کے پاس لکھ کر بھیجی، محمد بن علی نے جواب میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ تمہاری دعوت اور کوشش کامیاب اور نتیجہ خیر ثابت ہوئی، اب تم کو خود اپنے قتل کا بھی منتظر رہنا چاہئے۔
۱۱۸ھ میں بکیر نے عمار بن زید کو ہوا خواہان بنوعباس کا سردار بنا کر خراسان کی جانب روانہ کیا، اس نے وہاں جا کر اپنے آپ کو خراش کے نام سے موسوم کیا، خراش نے ہمدردیٔ بنو عباس کو نماز روزہ پر بھی ترجیح دی اور لوگوں سے کہا کہ روزہ نماز سے بڑھ کر یہ کام ہے کہ بنو عباس کی خلافت قائم کرنے کے لیے کوشش کرو اور اس معاملہ کو رازداری میں رکھ کر افشا ہونے سے بچاؤ، محمد بن علی نے یہ حالات سن کر خراش کی نسبت ناراضی کا اظہار کیا، گورنر خراسان اسد قسری کو خراش کا حال معلوم ہوا تو اس نے گرفتار کرا کر اس کو قتل کر دیا۔