کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 83
ہر ایشیائی قوم کے لیے قابل اقتدا سمجھتے جاتے تھے لیکن ان کی حالت ظہور اسلام کے وقت اس قدر خراب اور ذلیل ہو چکی تھی کہ وہ شرک میں مبتلا ہونے کے سبب اپنی ایک ایک خوبی برباد اور زائل کر چکے تھے۔ زرتشت[1] کو خدائی صفات دے کر انہوں نے خود کو معبود ان باطلہ میں شامل کر لیا تھا، اس مذہب میں خالق خیر اور خالق شر دو معبود یزدان و اہر من کے نام سے پوجے جاتے تھے، آگ کی پرستش اعلانیہ، خوب زور و شور سے ہوتی تھی، چاند سورج اور ستاروں ، سیاروں کی پرستش بھی رائج تھی۔ چوری و رہزنی کا بھی ملک میں زور تھا، زنا کا رواج اس درجہ ترقی کر گیا تھا کہ مزدک ناہنجار نے سر دربار کسرائے دیران کی بانوئے سلطنت کو بے عصمت کرنے کی فرمائش کی اور فرماں روائے ایران نے اس کی اس نا معقول و حیا سوز جرات کی مخالفت ضروری نہ سمجھی۔ آپس کی نااتفاقی و درندگی، بغض و حسد، دھوکا بازی، فریب دہی، زبردستوں کا زیر دستوں کو چوپایوں سے زیادہ ذلیل سمجھنا وغیرہ وہ معائب تھے، جنہوں نے ایران پر ہر طرف سے نحوست وادبار کو اس طرح متوجہ کر دیا تھا جیسے سیلاب نشیب کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تمام علوم، تمام تہذیب، تمام اخلاق فاضلہ اور تمام انسانی خوبیاں ملک ایران کو خالی کر چکی تھیں اور وہ ملک جو کسی زمانہ میں تہذیب و تمدن کا منبع و مرکز تھا یکسر تاریک ہو چکا تھا، نہ صرف ستارہ پرستی و آتش پرستی و بت پرستی و مشاہیر پرستی ہی رائج تھی بلکہ بادشاہ ، وزراء ، سپہ سالار اور امراء بھی عوام سے اپنی پرستش کراتے تھے، اس عذاب سے ایرانی مخلوق اس وقت آزاد اور ملک کی تاریکی اس وقت دور ہوئی جب کہ مسلمانوں نے حدود ایران میں فاتحانہ قدم رکھا۔ روم و یونان: ایرانی شہنشاہی کی مد مقابل دنیا کی دوسری سب سے بڑی طاقت رومیوں کی سلطنت و حکومت تھی روم و یونان کی تہذیب بھی بہت قدیم و شاندار تھی، ان کے علوم و فنون اور شوکت و عظمت مشہور آفاق ہو چکی تھی، طب ، ریاضی، ہئیت، منطق ، فلسفہ و حکمت وغیرہ کی ترقی میں دنیا کا کوئی ملک بھی یونان کا مقابلہ نہیں کر سکا تھا، اسی ملک میں سقراط، بقراط، لقمان، افلاطون، ارسطو پیدا ہو چکے تھے، اسی ملک میں سکندر جیسا فتح مند اور ملک گیر بادشاہ پیدا ہوا تھا، یونانی قیصر جس کا دارالسلطنت قسطنطنیہ تھا، نہ صرف شہنشاہ بلکہ دینی پیشوا بھی سمجھا جاتا تھا، باوجود ان مادی و علمی ترقی کے چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی میں روم اور یونان اس قدر ذلت اور پستی کی حالت کو پہنچ چکے تھے کہ ایران کی تاریکی روم و یونان کی تاریکی سے ہرگز زیادہ نہ تھی۔ جس طرح ایران میں ہر مقروض اپنے آپ کو بطور غلام کے بیچ ڈالتا تھا اسی طرح یونان میں
[1] زردشت/زرتشت ایران کے آتش پرست مجوسیوں کا پیشوا تھا۔