کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 827
طرف روانہ کیا تھا۔
قیصر روم :
ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں قیصر کی فوجوں کو بھی بار بار مسلمانوں نے شکستیں دیں ، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے سے سردی اور گرمی کے موسموں میں شمال کی جانب حملہ آور ہونے والی فوجیں مقرر تھیں ، یہ سرمائی اور گرمائی فوجیں قسطنطنیہ اور قیصر کے علاقوں پر حملہ آور ہوتی رہتی تھیں ، اور اسی لیے رومیوں پر مسلمانوں کا رعب قائم تھا، ہشام کے زمانے میں معاویہ بن ہشام، سعید بن ہشام، سلیمان بن ہشام، مسلمہ بن عبدالملک، مروان بن محمد، عباس بن ولید وغیرہ شہزادے ان فوجوں کے سردار ہو ہو کر حملہ آور ہوتے رہے، ان شہزادوں کے ساتھ عبداللہ بطال اور عبدالوہاب بن بخت وغیرہ مشہور شہسوار سردار ہوتے تھے، جن کی بہادری وجال بازی کی دھاک ملک روم میں بیٹھی ہوئی تھی، رومیوں کو ہشام کے عہد میں مسلمانوں کے ہاتھ سے بڑے بڑے نقصانات برداشت کرنے پڑے اور کبھی ان کو کوئی فتح مسلمانوں کے مقابلے میں حاصل نہ ہوسکی۔
اندلس میں بھی عبداللہ بن عقبہ کے کارنامے یورپ کے عیسائیوں اور عیسائی بادشاہوں کو خوف زدہ رکھنے اور مسلمانوں کے نام سے لرزاں وترساں بنانے کے لیے کافی تھے، حجاز ویمن وغیرہ میں بھی امن وامان ہوگیا۔
زید بن علی رضی اللہ عنہ :
حسین بن علی رضی اللہ عنہما بن ابی طالب کے ساتھ کربلا میں اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکہ میں حکومت بنو امیہ کی طرف سے جو سلوک ہوا اس نے اور اس کے بعد حجاج وغیرہ نے حجاز وعراق میں جس قسم کا طرز عمل اخیتار کیا تھا اس نے حجاز وعراق کے عرب قبائل کو اوّل خوف زدہ بنا کر خاموش کر دیا تھا، اس کے بعد ایصال زر اور مال ودولت کے استعمال نے یہ اثر پیدا کیا کہ لوگوں کے دلوں میں بنوامیہ کی طرف سے حاسدانہ جذبہ پیدا ہو کر اندر ہی اندر بنوامیہ کے ساتھ خلوص وہمدردی دلوں سے دور ہونے لگی، ہشام کی حکومت بست سالہ کا زمانہ بظاہر امن وسکون اور اطمینان کا زمانہ تھا، اب عراق وحجاز میں حجاج و ابن زیاد وغیرہ جیسے سخت گیر وتشدد پسند حکمران بھی نہ تھے، بنو ہاشم کو رہ رہ کر اپنی بربادیوں اور بنو امیہ کی کامیابیوں کا خیال آتا تھا، وہ تمام ان لوگوں کو جو براہ راست حکومت وقت سے کوئی غیر معمولی فائدہ نہیں اٹھا رہے تھے اپنا ہمدرد دیکھتے تھے، خوف ودہشت کا پتھر بھی چھاتی سے اتر چکا تھا لہٰذا بنو ہاشم نے بنو امیہ کی حکومت مٹانے اور خود حکومت حاصل کرنے کا مصمم ارادہ کیا، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے