کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 825
ترکمانوں اور ترکوں کے حوصلے بہت بڑھ گئے اور اپنی کامیابی کی خوشی اور جوش میں وہ بڑھتے ہوئے موصل کے قریب تک پہنچ گئے۔ یہ خبر دارالخلافہ دمشق میں پہنچ تو ہشام بن عبدالملک نے سعید حرشی کو بلا کر کہا کہ دیکھو جراح ترکوں سے شکست کھا کر بھاگ نکلا، سعید نے کہا جراح کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف شکست کھا کر بھاگنے سے زیادہ ہے وہ ترکوں سے شکست کھا کر فرار کی ندامت گوارا نہیں کر سکتا، میرا خیال یہ ہے کہ وہ شہید ہوگیا، ہشام نے کہا کہ اب کیا تدبیر کی جائے، سعید حرشی نے کہا کہ آپ مجھ کو صرف چالیس آدمیوں کے ساتھ اس طرف روانہ کر دیجئے اور روزانہ چالیس آدمی روانہ کرتے رہیئے، نیز ایک حکم عام اس طرف کے تمام امیروں اور عاملوں کے نام بھیج دیجئے کہ وہ بوقت ضرورت میری مدد کریں ۔ ہشام نے اس تجویز کو پسند کیا اور سعید چالیس آدمیوں کے ساتھ روانہ ہو گیا، راستے میں جراح کے ہمراہی ملے جو تباہ حال آرہے تھے، ان کو بھی سعید نے اپنے ہمراہ لیا اور راستے میں جہاں جہاں مسلمان قبیلوں پر سے اس کا گزر ہوا جہاد کی ترغیب لوگوں کو دیتا گیا، اس طرح اس کے ساتھ ہر جگہ سے لوگ شامل ہوتے رہے، مقام خلاط پر پہنچ کر سعید کا ترکوں سے مقابلہ ہوا، نہایت خون ریز جنگ کے بعد سعید نے ترکوں کو شکست دی، مسلمانوں کے ہاتھ خوب مال غنیمت آیا۔ اس فتح کے بعد سعید نے مقام برزغہ میں قیام کیا، ترکوں نے مقام ورثان کا محاصرہ کر رکھا تھا، سعید نے برزغہ سے اہل ورثان کے پاس اسلامی لشکر کے پہنچنے کی خبر بھیجی اور ترکوں کو پیغام دیا کہ ورثان کا محاصرہ اٹھا لو ورنہ ہم حملہ آور ہوتے ہیں ۔ ترک ڈر کے مارے خود ہی محاصرہ اٹھا کر چل دیئے، سعید ورثان میں داخل ہوا اس کے بعد وہ اردبیل تک بڑھتا چلا گیا، وہاں جا کر قیام، معلوم ہوا کہ وہاں سے چار کوس کے فاصلے پر ترکوں کا دس ہزار لشکر پڑا ہے اور ان کے پاس پانچ ہزار مسلمان قیدی گرفتار ہیں سعید نے رات ہی کو حملہ کیا اور ان دس ہزار ترکوں کو قتل کر کے مسلمان قیدیوں کو آزاد کرا لیا، اگلے روز باجروان کی طرف روانہ ہوا، ایک جاسوس نے اطلاع دی کہ ترکوں کا ایک اور لشکر قریب ہی خیمہ زن ہے، سعید نے اسی رات ان پر بھی حملہ کیا اور سب کو قتل کر کے مسلمان قیدیوں کو چھڑایا، ان ہی قیدیوں میں جراح کے لڑکے اور اہل وعیال بھی تھے۔ اس کے بعد پھر ترکوں نے متفق ہو کر ایک بڑا لشکر مقابلہ کے لیے فراہم کیا، مقام زرند میں دونوں لشکر مقابلے پر آئے، سخت خون ریز لڑائی ہوئی اور مسلمانوں کے مقابلے سے ترکوں کو پشت پھیر بھاگنا پڑا، اس شکست کی تلافی کے لیے ایک مرتبہ پھر ترکوں نے مقابلہ کی تیاریاں کیں اور انتقام لینے کی غرض