کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 823
متوجہ ہوا، مرو میں عاصم بن عبداللہ نے لوگوں کو جمع کر کے مقابلہ پر آمادہ کرنا چاہا، لیکن یہاں بھی پہلے ہی سے حرث بن شریح کے ساتھ لوگوں کی خط وکتابت جاری تھی۔ حرث بن شریح کی جمعیت ساٹھ ہزار تک پہنچ چکی تھی جس میں ازد وتمیم کے نامی گرامی سردار اور فاریاب و طالقان کے زمین دار سب شامل تھے، ادھر عاصم بن عبداللہ نے بھی مقابلہ کے لیے تمام ممکن کوششوں سے کام لیا، حرث بن شریح نے مرو پر نہایت جرائت کے ساتھ حملہ کیا، مگر عین مقابلے کے وقت اس کی فوج میں سے چار ہزار آدمی ازد وتمیم کے کٹ کر عاصم کی فوج میں آملے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حرث بن شریح کے ہمرائیوں کی جرأت ودلیری اور جوش وخروش میں کسی قدر فرق آگیا، مگر لڑائی بڑے زور شور کی ہوئی، نتیجہ یہ ہوا کہ حرث بن شریح شکست کھا کر پیچھے کو لوٹا اور عاصم نے اس کا تعاقب نہ کیا، عاصم نے منازل رہبان کے قریب پہنچ کر اپنا خیمہ نصب کیا تو اس کے پاس کل تین ہزار سوار آکر جمع ہوئے۔ حرث بن شریح نے اس کے بعد اپنی حالت کو پھر درست کر لیا اور وہ اپنے مقبوضات کو خراسان میں تیزی سے ترقی دیتا رہا۔ ان حالات سے مطلع ہو کر دمشق سے ہشام بن عبدالملک نے عاصم سے جواب طلب کیا تو عاصم نے لکھا کہ خراسان کا تعلق براہ راست دمشق یعنی دربار خلافت سے ہے، اس لیے اطلاعات کے جانے اور بوقت ضرورت مدد کے آنے میں توقف ہوتا ہے، مناسب یہ ہے کہ جس طرح پہلے خراسان کا صوبہ عراق کے ماتحت تھا، اسی طرح اس کو اب بھی عراق کے ما تحت کر دیا جائے تاکہ بصرہ وکوفہ سے جلد امداد پہنچ سکے، ہشام بن عبدالملک نے اس رائے کو تو پسند کیا مگر عاصم بن عبداللہ کو خراسان کی حکومت سے معزول کر دیا اور خالد بن عبداللہ قسری گورنر عراق کو لکھا کہ تم اپنے بھائی اسد بن عبداللہ کو پھر خراسان کا حاکم بنا کر بھیج دو۔ عاصم کو جب اپنی معزولی اور اس جدید انتظام کی خبر پہنچی تو اس نے حرث بن شریح کے ساتھ مصالحت کر کے یہ تجویز دی کہ آؤ ہم دونوں ہشام بن عبدالملک کو ایک تبلیغی خط لکھیں اور کتاب وسنت پر عمل کرنے کی دعوت دیں ، اگر وہ انکار کرے تو دونوں متفق ہو کر اس کی مخالفت میں کوشاں ہوں ، لیکن یہ مصالحت تادیر قائم نہ رہ سکی اور نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی، دونوں میں کسی بات پر ان بن ہوگئی اور لڑائی تک نوبت پہنچی۔ اس لڑائی میں حرث کو شکست ہوئی اور اس کے اکثر ہمرائیوں کو عاصم نے گرفتار کرکے قتل کر ڈالا اور اس فتح کو ہشام بن عبدالملک کی خوشنویٔ مزاج کا ذریعہ بنانا چاہا، مگر اسد بن عبداللہ سند گورنری لیے