کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 822
کے ساتھ نکاح کیا، ہشام بن عبدالمللک کو خاندان مہلب کے ساتھ سخت عداوت تھی، یہ خبر پہنچی، تو اس کو بہت ناگوار گزرا اور جنید کو خراسان کی حکومت سے معزول کر کے عاصم بن عبداللہ بن یزید ہلالی کو خراسان کی سند گورنری دے کر روانہ کیا، ادھر عاصم خراسان کی طرف روانہ ہوا، ادھر جنید کے مرض استسقاء نے خطرناک صورت اختیار کی، جس روز عاصم مرو میں داخل ہوا، اسی روز اس کے آنے سے پہلے فوت ہوچکا تھا، عاصم نے خراسان پہنچ کر جنید کے عاملوں کو معزول کر کے اپنے جدید عامل مقرر کیے۔ حرث بن شریح: ۱۰۰ھ سے جب کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت کا زمانہ تھا، بنو عباس نے اپنی خلافت کے لیے خلافت بنو امیہ کے خلاف خفیہ کوششوں اور سازشوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، یہ کوششیں نہایت احتیاط اور دانائی کے ساتھ جاری تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث کو خاص طور پر شائع کیا جاتا تھا، بعض روایات مصلحتاً وضع بھی کر لی گئی تھیں ، بعض روایات میں کچھ فقرات اضافہ کر دیئے گئے تھے، جن سب کا منشا یہ تھا کہ لوگوں کو اس بات کا کامل یقین دلایا جائے کہ خلافت اسلامیہ بنو عباس میں ضرور آئے گی اور بہت جلد آئے گی، اس کے علاوہ بنو ہاشم کا حق دارخلافت ہونا اور بنو امیہ کا ناجائز طور پر برسر حکومت آجانا چونکہ پہلے ہی سے انقلابی جماعتوں کے لیے بطور ایک زبردست ہتھیار کے استعمال ہو رہا تھا لہٰذا ان باتوں سے بھی خوب فائدہ اٹھایا گیا، اس کام کے لیے خاص خاص قابل آدمی بطور مشنری مصروف کار تھے اور بنو امیہ اپنے زعم حکومت میں ایسی باتوں کو خاطر میں نہ لاتے، نہ ان کے انسداد کی طرف متوجہ ہونے کو ضروری سمجھتے تھے، نہ اس قسم کی خفیہ سازشوں کی ٹوہ اور تلاش میں رہنا پسند کرتے تھے۔ فاطمیوں اور علویوں نے بھی عباسیوں کے متوازی اس قسم کی کوششوں اور سازشوں کا سلسلہ پہلے ہی سے باقاعدہ جاری کر رکھا تھا اور یہ تمام سلسلے خراسان ہی میں نشونما پا رہے تھے کیونکہ خراسان ہی کی آب وہوا ایسی کوششوں اور سازشوں کے لیے زیادہ موافق وموزوں تھی، خراسان میں بنی ازد کے نامور قبیلے کا سردار حرث بن شریح خاص طور پر علویوں اور فاطمیوں کا شیدائی تھا، چنانچہ ۱۱۶ھ میں اس نے سیاہ کپڑے پہنے اور لوگوں کو اتباع کتاب وسنت اور بیعت امام رضا کی دعوت دی اور فاریاب میں پہنچ کر اس کام کو شروع کیا، چار ہزار کی جانباز جمعیت اس کے گرد جمع ہوگئی، یہ اس فوج کو لے کر بلخ کی طرف متوجہ ہوا، بلخ میں ان دنوں نصر بن سیار حاکم تھا، وہ دس ہزار فوج لے کر مقابلہ کو نکلا۔ مگر شکست کھائی۔ حرث بن شریح بلخ پر قابض ومتصرف ہو کر اور اپنی طرف سے سلیمان بن عبداللہ بن حازم کو بلخ میں مامور کر کے جرجان کی طرف بڑھا، بڑی آسانی سے جرجان پر بھی قابض ومتصرف ہو کر مرو کی طرف