کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 819
سمر قند کے علاقہ پر حسن بن عمرطہ کندی صیغۂ مال کا افسر مقرر تھا۔ جب لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے تو اس سے جزیہ کی آمدنی جو ذمیوں سے لیا جاتا تھا کم ہونے لگی، ذمیوں کے نومسلم ہونے سے جو آمدنی میں کمی ہوئی تو حسن بن عمرطٰہٰ نے اس کی شکایت اشرس بن عبداللہ سلمی گورنر خراسان کو لکھی، اشرس بن عبداللہ نے جواب دیا کہ بہت سے لوگ ممکن ہے کہ محض جزیہ کی وجہ سے مسلمان ہوگئے ہوں اور دل سے انہوں نے اسلام قبول نہ کیا ہو۔ لہٰذا تم دیکھو کہ جس نے ختنہ کروالیا ہو اور نماز پڑھتا ہو اس کو جزیہ معاف کر دو، ورنہ چاہے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہے اس سے ضرور جزیہ وصول کرو۔ اشرس اگرچہ خود اس کو پسند نہ کرتا تھا، مگر خالد اور ہشام کا منشاء یہی تھا کہ نو مسلموں کے ساتھ سختی سے محاسبہ ومعاملہ کیا جائے، اشرس کے پاس سے اس جواب کے آنے پر حسن بن عمر طٰہٰ نے اس حکم کی تعمیل میں اس لیے تامل کیا، کہ یہ شریعت اسلام کے موافق نہ تھا، اشرس بن عبداللہ نے حسن بن عمر طٰہٰ کو صیغۂ مال سے معزول کر کے ہانی ابن ہانی کو مامور کیا اور سمر قند کی حکومت و سپہ سالاری پر اس کو قائم رکھا۔ ہانی ابن ہانی نے نومسلموں سے آکر جزیہ وصول کرنا شروع کیا، ابوالصیداء نے نومسلموں کو جزیہ دینے اور ہانی کو جزیہ لینے سے روکا، ہانی نے اشرس کو خط لکھا کہ یہ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں ، انہوں نے مسجدیں بھی بنالی ہیں ، ان سے جزیہ کیسے وصول ہوسکتا ہے، اس کے جواب میں ہانی کے پاس حکم پہنچا کہ تم ان تمام لوگوں سے جو جزیہ دیا کرتے تھے جزیہ وصول کرو، چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوگئے ہوں ۔ یہ دیکھ کر ابوالصیداء نے نومسلموں کی سات ہزار جمیت لے کر سمر قند سے چند فرسنگ کے فاصلے پر قیام کیا اور مقابلے پر مستعد ہوگیا، چونکہ ابوالصیداء کے پاس وجہ مخالفت معقول تھی، لہٰذا بہت سے مسلمان سردار حاکم سمر قند کی فوج میں سے ابوالصیداء کے پاس نومسلموں کی حمایت کے لیے چلے گئے، اشرس نے یہ حالت دیکھ کر حسن بن عمر طٰہٰ کو سمرقند کی حکومت سے معزول کر کے محشر بن حزاحم سلمی کو مامور کیا، محشر بن مزاحم نے سمرقند پہنچ کر ابوالصیداء اور اس کے ہمراہی سرداروں کو صلح کے بہانے دھوکے سے بلا کر قید کر دیا اور اشرس کے پاس روانہ کر دیا۔ نومسلموں نے ابوفاطمہ کو اپنا سردار بنا لیا، آخر مجبور ہو کر ان مسلمانوں کو جزیہ کی معافی کا وعدہ دیا گیا اور جب ان کی جمعیت اور اتفاق جاتا رہا تو بتدریج ان پر سختی شروع کی گئی اور طرح طرح سے ذلیل کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ لوگ جو مسلمان ہوچکے تھے پھر مرتد ہو کر باغی ہوگئے اور از سرنو مقابلہ پر آمادہ ہو کر خاقان سے خواہاں امداد ہوئے، خاقان اپنی زبردست فوجیں لے کر آیا اور مسلمانوں کے ساتھ ایک جدید سلسلۂ جنگ شروع ہوگیا، اشرس خود مقابلہ پر پہنچا، طرفین سے خوب داد شجاعت دی گئی،