کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 818
زبردست اور خون ریز لڑائیاں ہوئیں ، انجام کار خاقان کو شکست ہوئی، اور ترکوں کے بڑے بڑے سردار مسلمانوں نے گرفتار کر لیے، اسی سال ہشام بن عبدالملک خلیفۂ دمشق نے خالد بن عبداللہ کو خط لکھا کہ مسلم بن سعید کو خراسان کی گورنری سے معزول کر کے اپنے بھائی اسد بن عبداللہ قسری کو خراسان کا گورنر بنا کر بھیج دو، چنانچہ خالد بن عبداللہ نے اسد بن عبداللہ اپنے بھائی کو خراسان کی سند حکومت دے کر روانہ کیا اور مسلم بن سعید نے بخوشی خراسان کی حکومت اس کے سپرد کر دی خالد بن عبداللہ نے جب اپنے بھائی اسد بن عبداللہ کو خراسان کا حاکم بنا کر بھیجا تو اس کے ساتھ ہی عبدالرحمن بن نعیم کو اس کا نائب بنا کر بھیج دیا تھا۔ اسد بن عبداللہ نے خراسان کی حکومت سنبھالتے ہیں جبال ہرات یعنی غور وغیرہ کی طرف حملہ کیا اور وہاں سے مسلمانوں کو بہت سا مال غنیمت حاصل ہوا، ان لڑائیوں میں نصر بن سیار اور مسلم بن احور نے بہت نام وری حاصل کی، اسد بن عبداللہ نے چند ہی روز کے بعد ایسے اخلاق کا اظہار کیا کہ لوگ اس سے پریشان ودحشت زدہ ہونے لگے، اس نے نصر بن سیار کے سودرے لگوائے۔ عبدالرحمن بن نعیم کا سرمنڈوایا اور ان لوگوں کو اپنے بھائی خالد بن عبداللہ کے پاس بھیج دیا کہ یہ میرے قتل کی سازش میں شریک تھے۔ اسی طرح وہ اہل خراسان کو بھی بہت لعن وطعن کرتا اور سختی سے پیش آتا تھا، ان باتوں کا حال ہشام بن عبدالملک کو معلوم ہوا تو اس نے دمشق سے خالد بن عبداللہ کو لکھا کہ اسد بن عبداللہ کو خراسان کی حکومت سے معزول کر دو، پھر خود ہی براہ راست اشرس بن عبداللہ سلمی کو خراسان کی حکومت پر مامور کر کے بھیج دیا اور خالد کو اطلاع دے دی۔ اشرس نے خراسان میں پہنچ کر اپنے نیک سلوک اور خوش اخلاقی سے سب کو خوش کر لیا، اشرس نے ۱۱۰ھ میں ابوالصیداء، صالح بن ظریف اور ربیع بن عمران تمیمی کو سمرقند وماوراء النھر کی طرف اس غرض سے روانہ کیا کہ وہاں جا کر لوگوں کو سلام کی خوبیاں سمجھائیں اور شرک کی برائیوں سے آگاہ کر کے راہ راست پر لائیں ، اس علاقے میں آئے دن بغاوتیں ہوتی رہتی تھیں اور حکومت اسلامیہ نوک شمشیر کے ذریعہ قائم تھی، اشرس نے اس کا بہترین علاج یہی تجویز کیا کہ ان لوگوں کو اسلام سے آگاہ کر کے مسلمان بنایا جائے تو ان کے اندر جس قدر عیوب ہیں وہ خود بخود دور ہوجائیں گے اور حکومت اسلامیہ کے لیے پھر کوئی خطرہ باقی نہ رہے گا، چنانچہ اس دعوت اسلام کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے شروع ہوئے۔