کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 813
دے سکتا ہے۔ وہ اپنے ماتحتوں سے اس بات کے خواہاں نہ تھے کہ ان کی ہر ایک جائز و ناجائز بات کی تائید کی جائے۔ وہ خلیفہ کو مسلمانوں کا حکمران اور فرماں رواہ نہیں جانتے تھے بلکہ مسلمانوں کا شفیق باپ سمجھتے تھے۔ غرض عہد صدیقی اور فاروقی میں جو جو کچھ ہم نے دیکھا ہے، اس کے تمام نمونے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اندر موجود تھے اور اسی لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے فوت ہونے پر خلافت راشدہ ختم ہو گئی۔ ان کے زمانے میں کثیر التعداد لوگوں نے بطیب خاطر اسلام قبول کیا۔ نو مسلموں کی یہ کثرت کسی دوسرے خلیفہ کے زمانہ میں نظر نہیں آتی۔ حالانکہ آپ کے عہد خلافت میں بہت ہی کم لڑائیاں اور چڑھائیاں ہوئیں ۔ آپ کی حکومت و سلطنت کے حدود سندھ، پنجاب، بخارا، ترکستان اور چین سے لے کر مراکش، اندلس اور فرانس تک وسیع تھے۔ اتنی بڑی عظیم الشان سلطنت میں ہر جگہ یکساں سکون اور امن و امان موجود تھا۔ آپ کے عہد مبارک میں سڑکیں نکالی گئیں ۔ ہر ملک میں مدرسے اور شفاخانے جاری ہوئے، عدل و انصاف دنیا نے آپ کے بعد تک کبھی ایسا نہیں دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے انتقال پر نہ صرف مسلمانوں کے گھروں میں رونا دھونا ہوا بلکہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی و یہودی سوگوار پائے گئے۔ راہبوں نے آپ کے مرنے کی خبر سن کر اپنے صومعوں اور عبادت خانوں میں سر پیٹ لیے اور کہا کہ آج دنیا سے عدل اٹھ گیا اور عدل کا قائم کرنے والا اور عدل کی حفاظت کرنے والا دنیا کو خالی کر گیا۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے شیعہ، سنی اور خارجی وغیرہ کے تمام اختلافات مٹا دیے اور آج بھی کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی طرف سے اپنے دل میں کوئی نفرت رکھتا ہو۔ ہر ایک سوچنے اور غور کرنے والے کے لیے موقع ہے کہ سوچے اور غور کرے کہ جو شخص سب سے زیادہ پابند اسلام ہوتا ہے، وہی سب سے زیادہ محبوب عالم بن جاتا ہے۔ آخر یہ اسلام کی خوبی نہیں تو اور کیا ہے؟ صدیق اکبر، فاروق اعظم رضی اللہ عنہما ، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ، نور الدین زنگی، صلاح الدین ایوبی رحمہما اللہ کو اہل یورپ بڑی عزت و عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ساتھ ہی ان کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ لوگ اسلام کے کس قدر پابند تھے۔ ان کی تمام خوبیاں صرف اسی ایک بات پر منحصر تھیں کہ وہ سچے پکے مسلمان تھے اور انہوں نے اپنی زندگیوں کو اسلامی نمونے پر قائم رکھنا چاہا تھا۔ ایک طرف ہم سوچتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ دنیا کے بہت بڑے خلیفہ تھے اور دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ وہ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے منبر پر خطبہ دے رہے ہیں تو حیرت و استعجاب کی انتہا نہیں رہتی۔ فرض اور ذمہ داری کے احساس کا اس سے بڑھ کر اور کیا مرتبہ ہو سکتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی زندگی نہایت عیش و تنعم کی