کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 812
عبدالملک بالکل آپ ہی کی طرح نیک اور اللہ والی خاتون تھیں ۔ فاطمہ بن عبدالملک خلیفہ کی پوتی، خلفاء کی بہن، خلیفہ کی بیوی تھیں مگر نہایت زاہدانہ زندگی بسر کی۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے بیٹے اسحاق، یعقوب، موسیٰ، عبداللہ بکر، ابراہیم بیویوں سے اور باقی امہات ولد سے تھے۔ جن کے نام عبدالملک، ولید، عاصم، یزید، عبداللہ، عبدالعزیز اور ریان تھے۔ آپ کے صاحبزادے عبدالملک بالکل باپ کے نمونے پر تھے۔ اکثر آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھ کو اپنے بیٹے عبدالملک کی وجہ سے نیکیوں اور عبادتوں کی ترغیب ہوتی ہے مگر یہ آپ کے سامنے ہی فوت ہو گئے تھے۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جو ترکہ چھوڑا، اس کی کل مقدار ۲۱ دینار تھی۔ اسی میں سے چند دینار کفن دفن میں صرف ہوئے، باقی بیٹوں ، بیٹیوں میں تقسیم ہوئے۔ عبدالرحمن بن قاسم بن محمد بن ابی بکر کا بیان ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے گیارہ بیٹے چھوڑے اور ہشام بن عبدالملک نے بھی گیارہ ہی بیٹے چھوڑے تھے۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ہر ایک بیٹے کو باپ کے ترکہ میں سے ایک دینار ملا اور ہشام بن عبدالملک کے بیٹوں میں سے ہر ایک نے باپ کے ترکہ سے دس دس لاکھ درہم پائے لیکن میں نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے بیٹوں میں سے ایک کو دیکھا کہ اس نے ایک دن جہاد کے لیے سو گھوڑے دیے اور ہشام کے ایک بیٹے کو دیکھا کہ وہ لوگوں سے صدقہ لے رہا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور خلافت پر ایک نظر: عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت کا زمانہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کی طرح بہت ہی مختصر ہے لیکن جس طرح عہد صدیقی بہت ہی اہم اور قیمتی زمانہ تھا، اسی طرح عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت کا زمانہ بھی عالم اسلام کے لیے قیمتی زمانہ تھا۔ بنو امیہ کی حکومت نے بتدریج لوگوں میں دنیا پرستی اور حب جاہ و مال پیدا کر کے آخرت کی طرف سے غفلت پیدا کر دی تھی۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی چند روزہ خلافت نے یک لخت ان تمام خرابیوں کو دور کر کے مسلمانوں کو پھر روحانیت اور نیکی کی طرف راغب کر دیا۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے خلافت اسلامیہ کو خلافت راشدہ کے نمونے پر قائم کر کے عہد صدیقی و عہد فاروقی کو دنیا میں پھر واپس بلا لیا۔ خلفاء کے استبداد اور قہر و جبر کو وہ سخت ناپسند کرتے اور دنیا میں آزادی و امن قائم کر کے ہر شخص کو اس کے انسانی حقوق سے متمتع ہونے کا موقع دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے اللہ کے ایک بھی منکر کو مجبور کرنا نہیں چاہا۔ انہوں نے خوارج کو بھی اپنے اظہار خیال کا موقع دیا۔ وہ خلیفۃ المسلمین کا مرتبہ اسی حد تک قائم رکھنا چاہتے تھے کہ اگر کوئی مجرم خلیفہ کو گالی دے تو زیادہ سے زیادہ خلیفہ بھی ویسی ہی گالی اس کو انتقاماً