کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 807
جائے گی، آخرت کے واسطے عمل کرو اور دنیا کے لیے اسی قدر توجہ کرو، جتنی ضرورت ہو اور یاد رکھو کہ تمہارے آباء و اجداد کو موت کھا چکی ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ سلف صالحین کی راہ پر عمل کرو، کیونکہ وہ تم سے اچھے اور زیادہ عالم تھے۔ جب آپ کے صاحبزادے عبدالملک نے انتقال کیا، تو آپ ان کی تعریف کرنے لگے، مسلمہ نے کہا کہ کیوں ، ان کی تو آپ تعریف کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ دیکھنا یہ ہے کہ وہ مرحوم میری ہی نظروں میں قابل تعریف تھا یا اور بھی اسے قابل تعریف سمجھتے تھے کیونکہ باپ کی نظروں میں بیٹا ہمیشہ قابل تعریف ہوتا ہے، اس لیے اس کے اندازے کا اعتبار نہیں ہے، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی صاحبزادی آپ کے پاس آئیں ، آپ نے ان کا استقبال کیا اور ان کے سامنے مؤدب بیٹھ گئے، انہوں نے جو کچھ طلب کیا ان کو عطا فرمایا۔ ایک مرتبہ آپ کے قریبی رشتہ داروں نے کہا کہ ہم مزاح و خوش طبعی کے ذریعہ امیر المومنین رحمہ اللہ کو اپنی طرف متوجہ کر لیں گے، چنانچہ کئی شخص جمع ہو کر آپ کے پاس پہنچے، ایک شخص نے خوش طبعی کی راہ سے کوئی بات کہی، دوسرے نے اس کی تائید کی، سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کہا کہ تم لوگ ایک نہایت ذلیل بات پر جمع ہوئے ہو ، جس کا انجام دشمنی ہے، بہتر یہ ہے کہ قرآن شریف پڑھو، اس کے بعد حدیث شریف دیکھو اور معانی حدیث میں تدبر کرو۔ یحییٰ غسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آپ نے خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کو ایک خارجی کے قتل سے منع فرمایا اور رائے دی کہ اس کو اس وقت تک قید رکھئے جب تک کہ یہ توبہ کرے، سلیمان نے اس خارجی کو بلایا اور کہا کہ بولو اب کیا کہتے ہو، اس نے کہا کہ اے فاسق ابن فاسق کیا پوچھتا ہے، سلیمان نے کہا کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی رائے سے مجبور ہوں ، پھر ان کو بلایا اور کہا کہ دیکھو یہ کیا کہتا ہے، خارجی نے پھر انہیں الفاظ کا اعادہ کیا، سلیمان نے کہا بتاؤ اب اس کے لیے کیا کہتے ہو، سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کسی قدر سکوت کے بعد کہا کہ امیر المومنین جس طرح اس نے آپ کو گالی دی ہے، آپ بھی اسے گالی دے لیجئے، خلیفہ سلیمان کہا نہیں یہ مناسب نہیں ہے، چنانچہ حکم دیا کہ اس کو قتل کر دیا جائے وہ قتل کر دیا گیا۔ آپ وہاں سے نکلے تو راستے میں آپ کو خالد کوتوال ملا اور کہنے لگا، کہ آپ نے عجیب رائے دی، کہ امیر المومنین بھی اس کو ویسی ہی گالی دے دیں ، جیسی اس نے دی ہے، میں تو ڈر گیا تھا کہ کہیں امیر المومنین آپ کی گردن اڑانے کا حکم نہ دے دیں ۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے پوچھا کہ اگر میری گردن اڑانے کا حکم ملتا تو میری گردن اڑا دیتے، خالد نے کہا کہ میں ضرور آپ کو قتل کر دیتا۔