کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 806
فرمایا کہ میری حفاظت کے لیے قضا و قدر اور اجل کافی ہے، مجھے تمہاری ضرورت نہیں ، تاہم اگر تم میں سے کوئی میرے پاس رہنا چاہے، تو دس دینار تنخواہ ملے گی اور اگر نہ رہنا چاہے تو اپنے اہل و عیال میں چلا جائے۔ عمر بن مہاجر کہتے ہیں کہ آپ کا جی انار کھانے کو چاہا، آپ کے ایک عزیز نے انار بھیج دیا، آپ نے اس کی بہت ہی تعریف کی اور اپنے غلام سے فرمایا کہ جس شخص نے یہ بھیجا ہے اس سے میرا سلام کہنا اور یہ انار واپس کر کے کہہ دینا کہ تمہارا ہدیہ پہنچ گیا، غلام نے کہا کہ امیر المومنین رحمہ اللہ یہ تو آپ کے قریبی عزیز نے بھیجا ہے اس کو رکھ لینے میں کیا مضائقہ ہے، آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو ہدیہ قبول فرما لیا کرتے تھے، آپ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدیہ تھا، مگر ہمارے لیے رشوت ہے، آپ نے سوائے ایک شخص کے جس نے سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی کی تھی، کسی شخص کے درے نہیں لگوائے۔ جب آپ نے اپنے عیال کے نفقہ میں تخفیف کی، تو انہوں نے آپ سے شکایت کی، آپ نے فرمایا کہ میرے مال میں اس قدر وسعت نہیں ہے کہ تمہارا سابقہ نفقہ جاری رکھوں ، باقی رہا بیت المال سو اس میں تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے، جتنا اور مسلمانوں کا، یحییٰ غسانی کہتے ہیں کہ جب سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مجھے موصل کا حاکم بنایا، تو میں نے دیکھا کہ وہاں چوری کی وارداتیں بہت ہوتی ہیں ، میں نے آپ کو اس کیفیت سے اطلاع دے کر دریافت کیا کہ ایسے مقدموں میں شہادت پر فیصلہ کروں ، یا محض اپنی رائے اور وجدان پر، آپ نے حکم دیا کہ ہر مقدمہ میں شہادت کا لینا ضروری ہے اگر حق نے ان کی اصلاح نہ کی تو خدائے تعالیٰ ان کی کبھی اصلاح نہیں کرے گا، میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور موصل سب سے زیادہ صاف مقام ہو گیا۔ رجاء بن حیٰوۃ کہتے ہیں کہ ایک روز میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ چراغ گل ہو گیا، وہیں آپ کا غلام سو رہا تھا، میں نے چاہا کہ اسے جگا دوں ، آپ نے منع فرما دیا، پھر میں نے چاہا کہ میں خود اٹھ کر چراغ جلا دوں ، آپ نے فرمایا کہ مہمان کو تکلیف دینا خلاف مروت ہے، آپ خود اٹھے اور تیل کا کوزہ اٹھا کر چراغ میں تیل ڈالا اور اس کو جلا کر پھر اپنی جگہ آبیٹھے اور فرمایا کہ میں اب بھی وہی عمر بن عبدالعزیز ہوں جو پہلے تھا، یعنی چراغ جلانے سے میرے مرتبہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ عطاء کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ رات کے وقت فقہاء کو جمع فرماتے اور موت و قیامت کا ذکر کر کے اس قدر روتے کہ گویا ان کے سامنے کوئی جنازہ رکھا ہوا ہے، عبداللہ بن غبراء کہتے ہیں کہ ایک روز آپ نے خطبہ میں فرمایا کہ لوگو اپنی پوشیدہ باتوں میں اصلاح کرو، ظاہری باتوں میں خود اصلاح ہو