کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 804
حبیب بن ہند اسلمی کہتے ہیں کہ مجھ سے سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ خلفاء تین ہیں اور وہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ہیں ، میں نے پوچھا کہ اوّل الذکر دونوں بزرگوں کو تو ہم جانتے ہیں یہ تیسرے کون ہیں ، انہوں نے فرمایا کہ اگر تم زندہ رہے تو معلوم ہی کر لو گے اور اگر مر گئے تو وہ تمہارے بعد ہوں گے، ابن مسیب رحمہ اللہ کا انتقال سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت سے پہلے ہو چکا تھا۔ مالک بن دینار رحمہ اللہ کا قول ہے کہ لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص زاہد ہو سکتا ہے تو وہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ہیں ، دنیا ان کے پاس آئی اور انہوں نے اس کو چھوڑ دیا۔ یونس بن ابی شبیب کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو خلافت سے پہلے دیکھا کہ ان کے پاجامہ کا نیفہ فربہی کے سبب ان کے پیٹ میں گھستا ہوا تھا، لیکن خلیفہ ہونے کے بعد وہ اس قدر لاغر ہو گئے تھے ان کی ایک ایک ہڈی گنی جا سکتی تھی۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے صاحبزادے کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو جعفر منصور نے پوچھا کہ جب انہوں نے انتقال کیا تو کیا آمدنی تھی، میں نے کہا کہ کل چار سو دینار اور اگر کچھ دنوں اور زندہ رہتے تو اور بھی کم ہو جاتی۔ مسلمہ بن عبدالملک کا قول ہے کہ میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی عیادت کے لیے گیا تو دیکھا کہ وہ ایک میلا کرتا پہنے ہوئے ہیں ، میں نے اپنی بہن یعنی ان کی بیوی سے کہا کہ تم ان کا کرتا دھو کیوں نہیں دیتیں ، انہوں نے کہا کہ ان کے پاس دوسرا کرتا نہیں ہے کہ اس کو اتار کر اسے پہن لیں ۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے غلام ابو امیہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک روز اپنے آقا کی حرم محترم کی خدمت میں عرض کی کہ مسور کی دال کھاتے کھاتے ناک میں دم آگیا ہے، انہوں نے کہا کہ تمہارے آقا کا بھی روز کا یہی کھانا ہے۔ ایک روز اپنی بیوی سے کہا کہ انگور کھانے کو جی چاہتا ہے، اگر تمہارے پاس کچھ ہو تو دو، انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کوڑی بھی نہیں ، تم باوجودیہ کہ امیر المومنین ہو تمہارے پاس اتنا بھی نہیں کہ انگور لے کر کھا لو، آپ نے فرمایا کہ انگوروں کی تمنا دل میں لے جانا بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ کل کو دوزخ میں زنجیروں کی رگڑیں کھاؤں ۔ آپ کی حرم محترم فرماتی ہیں ، کہ ایام خلافت میں آپ کی یہ حالت رہی ہے کہ باہر سے آکر سجدے میں سر رکھ دیتے اور روتے روتے اسی حالت میں سو جاتے، جب آنکھ کھلتی تو پھر رونے لگتے،