کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 802
کون تھا جو آپ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے جا رہا تھا، عمر بن عبدالعزیز نے یہ سن کر تعجب سے کہا کہ آہا تم نے بھی دیکھ لیا ہے، تم بھی ایک صالح آدمی ہو، لہٰذا تم کو بتا دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، وہ خضر تھے مجھ سے امت محمدیہ کا حال پوچھنے اور عدل و انصاف کی تلقین کرنے آئے تھے۔[1] ایک مرتبہ ایک شخص نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہیں ، آپ کے دائیں طرف صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ، بائیں طرف فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بیٹھے ہیں اور سامنے آپ (عمر بن عبدالعزیز) ہیں ، اتنے میں دو آدمی کچھ خصومت لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ (عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ) سے متوجہ ہو کر فرمایا کہ اپنے دوران خلافت میں ان دونوں (ابوبکر ، عمر رضی اللہ عنہما ) کے قدم بقدم چلنا، یہ سن کر سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ ایسا ہی کرتے ہیں ، یہ خواب بیان کر کے راوی نے اس خواب پر قسم کھائی، تو سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رونے لگے۔ حکم بن عمر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک روز عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ داروغہ اصطبل حاضر ہوا، اور اصطبل کا خرچ مانگنے لگا، آپ نے فرمایا کہ تم تمام گھوڑوں کو شام کے شہروں میں لے جا کر جس قیمت پر ممکن ہو فروخت کر کے ان کی قیمت فی سبیل اللہ دے دو، میرے لیے میرا خچر ہی کافی ہے۔ زہری کا قول ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز نے بذریعہ خط سالم بن عبداللہ سے دریافت کیا کہ صدقات کے متعلق فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا طرز عمل کیا تھا، انہوں نے ان کے سوال کا جواب لکھ کر آخر میں لکھا کہ اگر تم وہی عمل کرو گے، جو سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں لوگوں سے کرتے تھے، تو تم اللہ تعالیٰ کی جناب میں سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ رتبہ پاؤ گے، جب آپ خلیفہ منتخب ہو گئے اور لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو آپ رونے اور کہنے لگے کہ مجھے اپنی نسبت بڑا ہی خوف ہے، سیّدنا حماد رحمہ اللہ نے پوچھا کہ بتائیے آپ کو درہم و دینار کی کتنی محبت ہے، سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ بالکل نہیں ، حماد رحمہ اللہ نے کہا کہ پھر آپ کیوں گھبراتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ضرور آپ کی مدد کرے گا۔ حنیفہ بن سعید بن عاص نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے کہا کہ آپ سے پہلے جتنے خلفائے ہوئے وہ ہمیں انعامات دیا کرتے تھے، مگر آپ نے خلیفہ ہو کر وہ سب روک دیئے، میرے پاس کچھ
[1] یہ قصہ حد درجہ مشکوک ہے، بلکہ صحیح نہیں ہے۔