کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 801
ہوئے تھے، آپ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تمہاری یہ خواہش ہے کہ میں تمہیں کسی لشکر کا سردار اور کسی علاقہ کا مالک و حاکم بنادوں ، یاد رکھو! میں اس بات کا بھی روادار نہیں ہوں کہ میرے مکان کا فرش تمہارے پیروں سے ناپاک ہو، تمہاری حالت بہت ہی افسوس ناک ہے، میں تم کو اپنے دین اور مسلمانوں کے اغراض کا مالک کسی طرح نہیں بنا سکتا، انہوں نے عرض کیا کہ کیا ہم کو بوجہ قرابت کوئی حق اور کوئی فضیلت حاصل نہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ اس معاملے میں تمہارے اور ایک ادنیٰ مسلمان کے درمیان میرے نزدیک رتی برابر فرق نہیں ہے۔ خلافت راشدہ کے بعد خلافت بنو امیہ میں شان جمہوریت بالکل جاتی رہی تھی اور حکومت میں وہی شخصی اور مطلق العنان حکومت کا رنگ پیدا ہو گیا تھا جو قیصر و کسریٰ کی حکومتوں میں پایا جاتا تھا، سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اسلامی جمہوری شان کو پھر واپس لانے کی کوشش فرمائی اور صدیق اکبر، فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کا زمانہ پھر لوگوں کی نگاہوں میں گھومنے لگا۔ چونکہ بنی امیہ کو آپ کی خلافت میں بہت نقصان پہنچا، وہ جائدادیں جو غاصبانہ طور پر ان کے قبضے میں تھیں ان سے چھن گئیں اور عزت و عظمت کا بلند مقام جو ان کو دوسرے قبائل کے مقابلے میں اپنی قومی حکومت کے سبب حاصل تھا، مساوات سے تبدیل ہونے لگا، لہٰذا تمام بنو امیہ ان کی خلافت کو اپنے لیے بے حد مضر اور باعث نقصان سمجھنے لگے، ان کی نیکی و پاک باطنی کے بنو امیہ بھی اسی طرح قائل تھے، جیسے اور لوگ، مگر بنی امیہ ان کے وجود کو اپنی قوم اور قبیلے کے لیے سم قاتل سمجھنے لگے۔ ایک مرتبہ بنوامیہ نے اپنی جائیدادوں کو بچانے کے لیے یہ تدبیر کی کہ عمر بن عبدالعزیز کی پھوپھی فاطمہ بنت مروان کے پاس گئے اور سفارش کرنے کی درخواست کی، عمر بن عبدالعزیز اپنی پھوپھی کا بہت ادب و لحاظ کرتے تھے، چنانچہ فاطمہ بنت مروان نے آکر بنی امیہ کی سفارش کی، انہوں نے پھوپھی کو اس طرح سمجھایا کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئیں کہ میں تو تمہارے بھائیوں کے اصرار سے تمہیں سمجھانے آئی تھی، مگر جب تمہارے ایسے پاک اور نیک خیالات ہیں تو میں کچھ نہیں کہتی، یہ کہہ کر واپس آئیں اور بنو امیہ سے کہا کہ تم نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی پوتی سے رشتہ کیا تھا، لہٰذا وہی فاروقی رنگ اولاد میں موجود ہے۔ فضائل و خصائل: ابو نعیم نے صحیح سند سے بیان کیا ہے کہ ایک روز رباح بن عبیدہ نے دیکھا کہ عمر بن عبدالعزیز نماز کے لیے جارہے ہیں اور ان کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی ان کے ہاتھ پر سہارا دیئے ہوئے چلا جا رہا ہے، جب نماز سے فارغ ہو کر آپ اپنے مکان میں تشریف لے آئے تو رباح نے پوچھا کہ وہ بوڑھا آدمی