کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 798
بعد کوئی نبی نہیں ، میں کسی چیز کو شروع کرنے والا نہیں بلکہ پورا کرنے والا ہوں ، میں مبتدع نہیں ، متبع ہوں ، میں کسی حال میں تم سے بہتر نہیں ہوں ، البتہ میرا بوجھ بہت زیادہ ہے، جو شخص ظالم بادشاہ سے بھاگ جائے وہ ظالم نہیں ہو سکتا، یاد رکھو کہ احکام الٰہی کے خلاف کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔‘‘ جب آپ سلیمان بن عبدالملک کے کفن دفن سے فارغ ہو کر واپس آرہے تھے تو آپ کے غلام نے کہا کہ آپ بہت ہی غمگین نظر آتے ہیں ، آپ نے اس کو جواب دیا کہ آج اس دنیا میں اگر کوئی شخص غمگین ہونے کے قابل ہے تو وہ میں ہوں ، مجھ پر یہ بوجھ کیا کم ہے … میں چاہتا ہوں کہ قبل اس کے کہ میرا نامہ اعمال لکھا جائے اور مجھ سے جواب طلب ہو میں حق دار کو اس کا حق پہنچا دوں ، آپ جب اپنے گھر میں بیعت خلافت اور سلیمان کے دفن سے فارغ ہو کر داخل ہوئے، تو آپ کی داڑھی آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھی، آپ کی بیوی نے گھبرا کر پوچھا، کیوں خیریت تو ہے، آپ نے فرمایا کہ خیریت کہاں ہے، میری گردن میں امت محمدی کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، ننگے، بھوکے، بیمار، مظلوم، مسافر، قیدی، بچے، بوڑھے، کم حیثیت، عیال دار وغیرہ سب کا بوجھ میرے سر پر آن پڑا ہے، اسی خوف میں رو رہا ہوں کہ کہیں قیامت میں مجھ سے پرسش ہوا اور میں جواب نہ دے سکوں ۔ خلیفہ ہونے کے بعد آپ نے اپنی بیوی فاطمہ بنت عبدالملک سے کہا کہ تم اپنے تمام زیورات بیت المال میں داخل کر دو، ورنہ میں تم سے جدائی اختیار کر لوں گا، کیونکہ مجھ کو یہ کسی طرح گوارا نہیں کہ تم اور تمہارے زیورات اور میں ایک گھر میں ہوں ، ان کی بیوی نے فوراً تمام زیورات جن میں وہ قیمتی موتی بھی تھا، جو عبدالملک نے اپنی بیٹی کو دیا تھا سب مسلمانوں کے لیے بیت المال بھجوا دیئے۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی وفات کے بعد جب یزید بن عبدالملک خلیفہ ہوا، تو اس نے فاطمہ بنت عبدالملک سے کہا کہ آپ چاہیں تو اپنے زیورات بیت المال سے واپس لے لیں ، فاطمہ نے جواب دیا کہ جس چیز کو میں نے اپنی خوشی سے بیت المال میں داخل کر دیا تھا اب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے بعد اس کو کیسے واپس لے سکتی ہوں ۔ عبدالعزیز بن ولید سلیمان کی وفات کے وقت موجود نہ تھا، نہ اس کو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی بیعت کا حال معلوم تھا، سلیمان کی وفات کا حال سن کر اس نے خلافت کا دعویٰ کیا اور فوج لے کر دمشق کی جانب آیا، جب دمشق کے قریب پہنچا اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت کا حال سنا، تو بلاتوقف ان کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی اور کہا کہ آپ کے ہاتھ پر بیعت ہونے کا حال مجھ کو معلوم نہیں تھا، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر تم خلافت اور حکومت لینے پر مستعد ہوتے تو میں ہر گز تمہارا مقابلہ نہ کرتا