کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 796
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بجز عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے اور کسی شخص کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشابہ ہو، یزید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ رکوع و سجود پوری طرح ادا کرتے تھے، مگر قیام و قعود میں دیر نہ کرتے تھے، محمد بن علی بن حسین رضی اللہ عنہما سے کسی نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی نسبت سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا کہ وہ بنی امیہ کے نجیب ہیں ، اور قیامت میں بصورت امت واحدہ اٹھیں گے۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہونے سے پیشتر نہایت پر تکلف اور قیمتی لباس پہنتے تھے، لیکن خلیفہ ہونے کے بعد انہوں نے کھانے اور پہننے میں بالکل درویشانہ روش اختیار کر لی تھی، میمون بن مہران کا قول ہے کہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ہمراہ بہت سے مشہور علماء شاگردوں کی طرح رہا کرتے تھے، مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ہم عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس اس خیال سے آئے کہ وہ ہم سے کچھ سیکھیں گے، مگر ان کے پاس آکر ہم کو خود انہیں سے بہت کچھ سیکھنا پڑا۔ جب ان کے والد عبدالعزیز بن مروان کا انتقال ہوا تو یہ مدینہ ہی میں تشریف رکھتے تھے، عبدالعزیز کی وفات کا حال سن کر عبدالملک بن مروان نے ان کو دمشق بلا کر اپنی بیٹی فاطمہ رحمہ اللہ کے ساتھ شادی کر دی، عبدالملک کی وفات کے بعد جب ولید خلیفہ ہوا تو اس نے ان کو مدینہ منورہ کا حاکم مقرر کیا، چنانچہ یہ ۸۶ھ سے ۹۳ھ تک مدینہ کے حاکم رہے، کئی مرتبہ امیر حج کی حیثیت سے حج کیا، امارت مدینہ کے زمانہ میں تمام فقہاء و علماء ان کے پاس جمع رہتے تھے۔ فقہائے مدینہ کی ایک کونسل آپ نے بنائی تھی اور ان ہی کے مشورہ سے امورات مہمہ انجام دیتے تھے۔ حجاج کی شکایت پر ۹۳ھ میں ولید نے انہیں امارت مدینہ سے معزول کر کے شام میں بلا لیا، جب ولید نے ارادہ کیا کہ اپنے بھائی سلیمان کو ولی عہدی سے معزول کر کے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنائے، تو حجاج و قتیبہ وغیرہ نے تو ولید کے ارادہ کی تائید کی، لیکن دوسرے امراء نے اس کو ناپسند کیا، سب سے پہلے جس شخص نے ولید کے اس ارادہ کی تائید اور پرزور مخالفت کی وہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز تھے، چنانچہ ولید نے ان کو قید کر دیا، تین برس تک یہ قید میں رہے، پھر کسی کی سفارش سے رہا کر دیئے گئے، سلیمان بن عبدالملک اسی لیے عمر بن عبدالعزیز کا بہت شکر گزار و احسان مند تھا۔ چنانچہ اس نے خود خلیفہ ہونے کے بعد ان کو اپنا وزیراعظم بنایا اور مرتے وقت ان کی خلافت کے لیے وصیت لکھ گیا۔ خلافت کا پروانہ : جب سلیمان بن عبدالملک کا انتقال ہوا، تو رجاء بن حیٰوۃ وابق کی مسجد میں گئے، تمام بنو امیہ