کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 795
سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ابو حفص سیّدنا عمر بن عبدالعزیز بن مروان بن حکم خلفائے راشدین میں خلیفہ خامس ہیں ، وہ خلیفہ صالح کے نام سے بھی مشہور ہیں ، اکثر اکابرین مسلمین کا قول ہے کہ خلفائے راشدین پانچ ہیں ۔ ابوبکر ، عمر، عثمان ، علی رضی اللہ عنہم اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ، سیّدنا عمر بن عبدالعزیز کے والد عبدالعزیز بن مروان مصر کے حاکم تھے، کہ ۶۲ھ میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ پیدا ہوئے، ان کی والدہ سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی پوتی یعنی عاصم بن عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں ، ان کے والد عبدالعزیز عبدالملک بن مروان کے بعد خلیفہ ہونے والے تھے، لیکن ان کا انتقال عبدالملک کے سامنے ہوا، لہٰذا وہ خلیفہ نہ ہو سکے۔ بچپن میں گھوڑے نے ان کے لات مار دی تھی، ان کے چہرے پر اس کے زخم کا نشان تھا، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میری اولاد میں سے ایک شخص ہو گا، اس کے چہرے پر ایک داغ ہو گا اور وہ زمین کو عدل سے بھر دے گا، یہی وجہ تھی کہ جب گھوڑے نے ان کے لات ماری ہے تو ان کے باپ ان کے چہرے سے خون پونچھتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ اگر تو وہی داغ دار ہے تو سعادت مند ہے۔ ابن سعد رحمہ اللہ کاقول ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ کاش میں اپنے اس داغ دار بیٹے کا زمانہ پاتا، جو دنیا کو اس طرح عدل سے بھر دے گا، جیسا کہ وہ اس وقت ظلم سے بھری ہوئی ہو گی، بلال بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے چہرے پر بھی ایک داغ تھا، اس لیے خیال تھا کہ شاید یہی بشارت عمر کے مصداق ہوں ، لیکن سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے پر سب کو معلوم ہو گیا، کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی پیشین گوئی کے مصداق وہی تھے، ان سے پہلے عام طور پر لوگ آپس میں ذکر کیا کرتے تھے کہ دنیا کا خاتمہ نہ ہو گا جب تک کہ مثیل عمر رضی اللہ عنہ حاکم نہ ہولے۔ بچپن میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے باپ نے ان کو مدینہ بھیج دیا تھا، مدینہ میں ہی ان کی تربیت ہوئی، فقہائے مدینہ کی صحبت میں ان کی عمر کا ابتدائی حصہ گزرا، علمائے مدینہ ہی سے انہوں نے علوم دینیہ حاصل کیے،علم و فضل اور تفقہ فی الدین میں ان کا وہ مرتبہ تھا، کہ اگر وہ خلیفہ نہ ہوتے تو ائمہ شرع میں ان کا شمار ہوتا اور وہ سب سے بڑے امام مانے جاتے، مدینہ میں ان کے والد نے ان کو عبیداللہ بن عبداللہ کے پاس بھیجا تھا، انہیں کے زیر توجہ ان کی تربیت ہوئی، زید بن اسلم نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی