کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 794
میرے حکم کے موافق بیعت لیں اور جو شخص انکار کرے، اس کی گردن اڑا دیں ۔ یہ حکم سنتے ہی سب نے بیعت کی اور مطلق چوں و چرا نہ کیا۔
رجاء بن حیوٰۃ جب بیعت لے کر واپس آ رہے تھے تو راستے میں ہشام بن عبدالملک ملا اور اس نے کہا کہ مجھ کو خوف معلوم ہوتا کہ امیر المومنین نے کہیں مجھ کو محروم ہی نہ رکھا ہو۔ اگر ایسا ہے تو مجھے بتا دو تاکہ میں اپنا کچھ انتظام کروں ۔ رجاء نے کہا کہ امیر المومنین نے مجھ کو سر بمہر لفافہ دیا ہے اور سب سے اس بات کو پوشیدہ رکھا، تم کو کیا جواب دے سکتا ہوں ۔ آگے چل کر اتفاقاً عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ مل گئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ کو بڑا ہی خوف معلوم ہو رہا ہے کہ کہیں سلیمان نے ولی عہدی کے لیے میرا ہی نام نہ لکھ دیا ہو۔ اگر تم کو معلوم ہو تو مجھے بتا دو تاکہ میں کوشش کر کے اس مصیبت کو ٹالوں اور سبک دوشی حاصل کروں ۔ رجاء نے ان کو بھی وہی جواب دیا جو ہشام بن عبدالملک کو دیا تھا۔
وفات:
سلیمان بن عبدالملک سنہ ۹۸ھ میں دمشق سے جہاد کے ارادے پر نکلا اور قسطنطنیہ کی طرف فوج روانہ کر کے خود مقام وابق میں مقیم رہ کر اس یورش کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ سلیمان کو حالت جہاد ہی میں موت آئی۔ ۱۰ ماہ صفر سنہ ۹۹ھ بروز جمعہ سلیمان نے بمقام وابق متصل قنسرین وفات پائی۔ قریباً پونے تین سال خلافت کی اور ۴۵ سال کی عمر پائی۔ اس خلیفہ کے زمانے میں بھی مسلمانوں کو ملکی فتوحات حاصل ہوئیں ۔ خلاف شرع کاموں کا رواج موقوف ہوا۔ حجاج کے عاملوں اور متوسلوں کو جہاں کہیں وہ مامور و مقرر تھے، موقوف و معزول کیا کیونکہ وہ بھی حجاج ہی کی طرح ظلم و تشدد کی جانب مائل تھے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ کے ساتھ جو معاملہ ہوا، اس میں سلیمان سے سخت غلطی ہوئی۔ سلیمان بن عبدالملک کے قابل تعریف کاموں اور عظیم الشان کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اپنے بعد عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو خلیفہ بنایا۔ اس ایک نیکی کے مقابلے میں سلیمان بن عبدالملک کی تمام غلطیوں اور لغزشوں کو بڑی آسانی سے فراموش کیا جا سکتا ہے اور وہ ہر ایک مدح و ستائش کا مستحق نظر آتا ہے۔