کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 792
کے ساتھ محاصرہ دیکھ کر سخت پریشان ہوئے۔ سال بھر گزرنے کے بعد انہوں نے خفیہ پیغاموں کے ذریعے سے اسی رومی سردار القون نامی کو اپنی طرف متوجہ کر کے اس بات کا لالچ دیا کہ اگر مسلمانوں کا محاصرہ اٹھوا دو اور ان کو یہاں سے رخصت کر دو تو ہم آدھا ملک تم کو دے دیں گے۔ القون اس پر رضا مند ہو گیا، اس نے مسلمہ کو مشورہ دیا کہ اگر تم اپنے غلہ کے انباروں اور کھیتوں کو آگ لگا دو گے تو رومی لوگ یہ سمجھیں گے کہ اب مسلمان سخت اور فیصلہ کن حملہ کرنے پر مستعد ہو گئے ہیں ۔ لہٰذا امید ہے کہ وہ فوراً شہر آپ کے سپرد کر دیں گے اور بغیر لوٹے ہوئے بہ آسانی شہر پر قبضہ ہو سکے گا۔ مسلمہ رومی سردار کے اس چکمے میں آ گیا۔ حالانکہ اس سے پیشتر رومی، مسلمہ کے پاس یہ پیغام بھیج چکے تھے کہ ہم سے فی کس ایک اشرفی کے حساب سے جزیہ لے لو اور محاصرہ اٹھا کر چلے جاؤ لیکن مسلمہ ان کی اس درخواست کو رد کر چکا تھا۔ چند روز اور محاصرہ جاری رہتا تو قسطنطنیہ کے فتح ہونے میں کوئی شبہ باقی نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ کو ابھی منظور نہ تھا کہ مسلمان قسطنطنیہ پر قابض و متصرف ہوں ۔ چنانچہ مسلمہ نے غلہ کے انباروں اور کھیتوں میں آگ لگوا دی۔ اس احمقانہ فعل کا اثر یہ ہوا کہ رومی بہت خوش ہوئے اور مدافعت پر دلیر ہو گئے۔ مسلمانوں کو غلہ کی تکلیف ہونے لگی۔ ادھر القون مع اپنے ہمراہیوں کے لشکر اسلام سے جدا ہو کر رومیوں میں جا ملا۔ سلیمان بن عبدالملک، مسلمہ کو روانہ کرنے کے بعد خود مقام وابق میں مقیم تھا اور یہیں سے ہر قسم کی امداد مسلمہ کو پہنچاتا رہتا تھا۔ ادھر کھیتی اور غلہ کو جلا دیا گیا، ادھر موسم سرما کے آ جانے کی وجہ سے سلیمان سامان رسد وغیرہ کی امداد مسلمہ تک نہ پہنچا سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لشکر اسلام کو فاقے ہونے لگے اور بھوک کی وجہ سے لوگ مرنے شروع ہوئے کیونکہ اب ارد گرد کے علاقے سے بھی غلہ لوٹ مار کے ذریعے سے حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر قیصر کے سردار برجان نامی نے جو شہر صقلیہ کا گورنر تھا، ایک فوج عظیم کے ساتھ لشکر اسلام پر حملہ کیا۔ مسلمہ نے اس کا مقابلہ کر کے شکست دی اور شہر صقلیہ کو فتح کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ اسی عرصہ میں خبر پہنچی کہ سلیمان بن عبدالملک کا انتقال ہو گیا۔ سلیمان بن عبدالملک کے اخلا ق و عادات: سلیمان بن عبدالملک نہایت فصیح البیان شخص تھا۔ عدل و انصاف کا شوقین اور جہاد کا حریص تھا۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو سلیمان نے اپنا وزیر و مشیر بنایا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سلیمان کے اخلاق و عادات میں خوبیاں پیدا ہو گئی تھیں ۔ عہد بنو امیہ میں ایک بری رسم جاری ہو گئی تھی کہ وہ نماز عموماً دیر کر کے آخر