کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 790
موسیٰ بن نصیر کا انجام: موسیٰ بن نصیر کی نسبت اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ اس نے تمام شمالی افریقہ میں امن و امان قائم رکھا اور اندلس کی فتح کو تکمیل تک پہنچایا، موسیٰ کا باپ نصیر عبدالعزیز بن مروان بن حکم کا مولیٰ یعنی آزاد کردہ غلام تھا، جو خاندان مروان کا ایک فرد سمجھا جاتا تھا، اس بہادر سردار کے حوصلے کا اندازہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ تمام بر اعظم یورپ کو صرف پندرہ بیس ہزار فوج سے فتح کر لینے کا ارادہ رکھتا تھا، موسیٰ بن نصیر جب دارالخلافہ میں پہنچا، تو اس کا قدرشناس خلیفہ ولید فوت ہو چکا تھا، سلیمان نے موسیٰ کے ساتھ بجائے اس کے کہ عزت و قدردانی کا برتاؤ کرتا، اس کو قید کر دیا اور اس قدر بھاری تاوان اس کے ذمہ عائد کیا، جو موسیٰ کی استطاعت سے باہر تھا، یہاں تک کہ موسیٰ کو تاوان کا روپیہ پورا کرنے کے لیے عرب سرداروں سے مانگ کر اپنی آبروبرباد کرنی پڑی اور اس کی تمام ناموری اور عزت و حرمت خاک میں مل گئی۔ ولید کے زمانے کے نامور سرداروں میں صرف مسلمہ بن عبدالملک سلیمان کی عنایت ریزیوں سے بچا رہا اور سلیمان نے اس کو بدستور اپنے عہدے اور مرتبہ پر قائم رکھا، مسلمہ سلیمان کا بھائی تھا اور اس کو ولی عہدی کے معاملہ سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ تھا، اس لیے سلیمان نے اس کو اپنے دشمنوں کی فہرست میں داخل نہیں کیا۔ یزید بن مہلب: اوپر بیان ہو چکا ہے کہ حجاج مہلب کے بیٹوں سے ناراض تھا اور یزید بن مہلب کو مع اس کے بھائیوں کے قید کر دیا تھا، یزید بن مہلب جیل خانے سے بھاگ کر فلسطین میں سلیمان بن عبدالملک کے پاس چلا گیا، اس زمانہ میں سلیمان بن عبدالملک فلسطین کا گورنر تھا، یہ بھی ذکر ہو چکا ہے کہ حجاج نے مرتے وقت اپنے بیٹے عبداللہ بن حجاج کو عراق میں اپنی جگہ عراق کا گورنر مقرر کیا تھا اور ولید بن عبدالملک نے اس تقرر کا جائز رکھا تھا، اب ولید کی وفات کے بعد جب سلیمان بن عبدالملک تخت خلافت پر بیٹھا تو اس نے سب سے پہلے حجاج کے بیٹے عبداللہ کو معزول کر کے اس کی جگہ یزید بن مہلب کو گورنر عراق مقرر کیا، یزید بن مہلب جانتا تھا کہ اگر لوگوں سے خراج کے وصول کرنے میں میں نے سختی کی تو حجاج کی طرح بدنام ہو جاؤں گا اور اگر رعایت و نرمی سے کام لیا تو سلیمان بن عبدالملک کی نگاہوں سے گر جاؤں گا، اس لیے اس نے یہ تدابیر اختیار کیں کہ سلیمان بن عبدالملک کو اس بات پر رضامند کیا کہ وہ عراق کی تحصیل خراج یعنی صیغہ مال کی افسری پر صالح بن عبدالرحمان کو مقرر کر دے اور باقی انتظامی و فوجی معاملات گورنر عراق یعنی یزید بن مہلب سے متعلق رہیں ۔