کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 79
کے مریض اونٹ کو چھوڑ کر اس کے عوض تندرست اونٹ کو جو مزے سے چر رہا ہو داغ دیا جاتا ہے۔‘‘ اسی طرح جب کوئی گائے پانی نہ پیتی تو بیلوں کو مارتے، ان کا عقیدہ تھا کہ جن بیلوں پر سوار ہو جاتا ہے اور گا یوں کو پانی پینے سے روکتا ہے۔ان کا عقیدہ تھا کہ اگر مقتول کا بدلہ قاتل سے نہ لیا تو مقتول کی کھوپڑی میں سے ایک پرندہ جس کا نام ہامہ ہے نکلتا ہے اور جب تک انتقام نہ لے لیا جائے برابر چیختا پھرتا ہے کہ مجھے پانی پلاؤ ، پانی پلاؤ۔ان کا عقیدہ تھا کہ بعض انسانوں کے پیٹ میں ایک سانپ رہتا ہے، جب وہ سانپ بھوکا ہوتا ہے تو پسلی کی ہڈیوں پر سے گوشت نوچ نوچ کر کھاتا ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اگر کسی عورت کے بچے مر جایا کرتے ہوں اور عورت کسی شریف متمول آدمی کی لاش کو اپنے پاؤں سے خوب کچلے تو پھر اس کے بچے جینے لگتے ہیں ۔[1] ان کا عقیدہ تھا کہ جن خرگوش سے بہت ڈرتا ہے، اس لیے جنوں سے محفوظ رہنے کے لیے خرگوش کی ہڈی بطور تعویذ کے بچوں کے گلے میں ڈالتے تھے۔[2] دختر کشی: بنی تمیم اور قریش میں دختر کشی کی رسم سب سے زیادہ جاری تھی، اس رسم دختر کشی پروہ فخر کرتے اور اپنے لیے نشان عزت سمجھتے تھے، بعض گھرانوں میں یہ سنگ دلی یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ لڑکی جب بڑی ہو جاتی، یعنی خوب میٹھی میٹھی باتیں کرتی، اور اس کی عمر پانچ چھ سال کی ہو جاتی تب اس کو اچھے کپڑے پہنا کر سنگ دل باپ خود لے کر بستی سے باہر جاتا، جہاں وہ پہلے سے ایک گہرا گڑھا کھود آتا تھا، اس گڑھے کے کنارے اس لڑکی کو کھڑا کر کے پیچھے سے دھکا دے کر گرا دیتا وہ لڑکی چیختی چلاتی اور باپ سے امداد طلب کرتی، لیکن وہ ظالم باپ اوپر سے ڈھیلے مار کر اور مٹی ڈال کر اس کو دبا دیتا اور زمین ہموار کر کے واپس چلا آتا اور اس طرح اپنے لخت جگر کو زندہ در گور کرنے پر فخر کرتا، بنی تمیم کے ایک شخص قیس بن عاصم نے اسی طرح اپنی دس لڑکیاں زندہ دفن کی تھیں ۔ دختر کشی کی اس ظالمانہ رسم سے عرب کا کوئی بھی قبیلہ پاک نہ تھا مگر بعض قبیلوں میں یہ حرکت کثرت سے ہوتی تھی اور بعض میں کسی قدر کم۔ قمار بازی: عرب جاہلیت میں قمار بازی کے بھی بہت شائق تھے، زیادہ تر ’’ازلام‘‘ کے ذریعہ جوا کھیلا جاتا
[1] و مشرکین عرب فاسد و بد عقیدہ توہمات کی انتہاء کو پہنچے ہوئے تھے۔ یہ فاسد عقائد ان کے ذہن و فکر کے بھرپور عکاس ہیں ۔ [2] و مشرکین عرب فاسد و بد عقیدہ توہمات کی انتہاء کو پہنچے ہوئے تھے۔ یہ فاسد عقائد ان کے ذہن و فکر کے بھرپور عکاس ہیں ۔