کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 789
سمجھتا تھا، محمد بن قاسم نہایت سمجھدار، بہادر اور مستقل مزاج، نیک طینت اور جوان صالح تھا، اس نوجوان نے سندھ و ہند کی فتوحات میں ایک طرف اپنے آپ کو رستم و اسکندر سے بڑھ کر ثابت کیا، تو دوسری طرف وہ نوشیروان عادل سے بڑھ کر عادل و رعایا پرور ظاہر ہوا تھا، اس نوجوان فتح مند سردار نے سلیمان کے خلاف قطعاً کوئی حرکت بھی نہیں کی تھی۔
حجاج کی وفات کے بعد بھی وہ اسی طرح فتوحات و ملک داری میں مصروف رہا جیسا کہ حجاج کی زندگی میں تھا، اس کے پاس جس قدر فوج تھی، وہ سب کی سب دل و جان سے اس پر فدا اور اس کے ہر ایک حکم کی تعمیل کو بسر و چشم موجود تھی اور یہ بھی سب سے بڑی دلیل اس بات کی تھی کہ محمد بن قاسم نہایت اعلیٰ درجہ کی قابلیت سپہ سالاری رکھتا تھا۔ ایسے نوجوان کی جس کی ابتداء ایسی عظیم الشان تھی، اگر تربیت کی جاتی اور اس سے کام لیا جاتا، تو وہ سلیمان ابن عبدالملک کے لیے تمام بر اعظم ایشیا کو چین و جاپان تک فتح کر دیتا، لیکن سلیمان بن عبدالملک نے جذبہ عداوت سے مغلوب ہو کر یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا والی بنا کر بھیجا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو گرفتار کر کے بھیج دو، سلیمان کا یہ حکم درحقیقت تمام کارگزار و فتح مند سپہ سالاروں کو بد دل بنا دینے کا ایک زبردست اعلان تھا، کسی خلیفہ یا سلطان کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی قابل شرم بات نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے سرداروں کے عظیم الشان اور قابل تعریف کاموں کا صلہ بجائے تحسین و آفرین اور عزت افزائی کے قید و گرفتاری سے دے۔
یزید بن ابی کبشہ سندھ میں آکر زور و قوت کے ذریعہ محمد بن قاسم کو ہر گز ہر گز مغلوب نہیں کرسکتا تھا۔ محمد بن قاسم رحمہ اللہ کے ہمراہیوں کو جب خلیفہ کے اس نامعقول حکم کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے محمد بن قاسم سے کہا کہ تم اس حکم کی ہر گز تعمیل نہ کرو، ہم تم کو اپنا امیر جانتے اورتمہارے ہاتھ پر اطاعت کی بیعت کیے ہوئے ہیں ، خلیفہ سلیمان کا ہاتھ ہر گز آپ تک نہیں پہنچ سکتا، حقیقت بھی یہ ہے کہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ کو مغلوب کرنے کے لیے خلیفہ سلیمان کو اپنی خلافت کا پورا زور لگانا پڑتا، کیونکہ یہاں محمد بن قاسم رحمہ اللہ کے پاس اس کی ہر دل عزیزی کے سبب ایسے ذرائع موجود تھے کہ سندھ کے ریگستان کا ہر ایک ذرہ اس کی اعانت و امداد کے لیے کوشاں ہوتا، مگر اس جوان صالح نے فوراً بلا توقف اپنے آپ کو ابن ابی کبشہ کے سپرد کر دیا اور کہا کہ خلیفہ وقت کے حکم کی نافرمانی کا جرم مجھ سے ہرگز سرزد نہ ہو گا۔
چنانچہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ کو گرفتار کرنے کے بعد ابن ابی کبشہ نے دمشق کی جانب روانہ کر دیا، وہاں سلیمان کے حکم سے وہ واسط کے جیل خانہ میں قید کر دیا گیا اور صالح بن عبدالرحمان کو اس پر مسلط کر دیا۔ جس نے اس کو جیل خانے میں انواع و اقسام کی تکلیفیں دے دے کر مار ہی ڈالا۔