کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 788
ہم خیال تھا اور قتیبہ بن مسلم بھی اس معاملہ میں حجاج و ولید کا ہم نوا تھا، لہٰذا سلیمان کو حجاج و قتیبہ دونوں سے سخت عداوت تھی، حجاج سلیمان کے خلیفہ ہونے سے پہلے ہی فوت ہو چکا تھا، قتیبہ البتہ خراسان کی گورنری پر مامور اور زندہ موجود تھا، قتیبہ کو اس بات کا احساس تھا کہ سلیمان کی خلافت میں میرے ساتھ کس قسم کاسلوک روا رکھا جائے گا۔ قتیبہ کا قتل: قتیبہ بن مسلم باہلی امیر خراسان نے جب سناکہ ولید فوت ہو گیا اور اس کی جگہ سلیمان بن عبدالملک تخت نشین ہوا، تو اس نے خراسان کی تمام موجودہ فوج اور سرداران لشکر کو جمع کرکے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ سلیمان بن عبدالملک کی خلافت سے انکار کرناچاہیے، قتیبہ کے پاس جو فوج تھی، اس میں ایک زبردست حصہ بنو تمیم کا تھا، بنو تمیم کا سردار وکیع تھا، وکیع نے یہ رنگ دیکھ کر لوگوں سے سلیمان بن عبدالملک کی بیعت خلافت لینی شروع کر دی، رفتہ رفتہ یہ خبر تمام لشکر میں پھیلی اور تمام قبائل وکیع کے گرد جمع ہو گئے، قتیبہ نے ہر چند کوشش کی کہ لوگ اس کی باتیں سنیں اور اس سے افہام و تفہیم کریں ، لیکن پھر کسی نے اس کی بات نہ پوچھی اور علانیہ گستاخیاں کرنے لگے، قتیبہ کے ساتھ اس کے بھائی اور بیٹے اور رشتہ دار شریک رہے، آخر لشکریوں نے لوٹ مار شروع کر دی اور قتیبہ کی ہر چیز کو لوٹنا اورجلانا شروع کیا، قتیبہ کے رشتہ داروں نے قتیبہ کے خیمہ کی حفاظت کرنی چاہی، لیکن وہ سب مارے گئے، اور بالآخر قتیبہ بھی بہت سے زخم کھا کر بے ہوش زمین پر گرا اور لوگوں نے فوراً اس کا سر کاٹ لیا، قتیبہ کے صرف بھائی اور بیٹے گیارہ شخص مارے گئے، اس کے بھائیوں میں صرف ایک شخص عمر بن مسلم اس لیے بچ گیا کہ اس کی ماں قبیلہ بنو تمیم سے تھی وکیع نے قتیبہ کا سر اور اس کی انگوٹھی خراسان سے سلیمان بن عبدالملک کے پاس بھجوا دی۔ قتیبہ بن مسلم خاندان بنو امیہ کے سرداروں میں نہایت زبردست فتح مند اور نامور سردار تھا۔ ایسے زبردست سردار کی ایسی موت نہایت افسوس ناک حادثہ ہے، لیکن چونکہ اس نے خلیفہ وقت کے خلاف کوشش کرنے میں ناعاقبت اندیشی سے کام لیا تھا۔ لہٰذا سلیمان بن عبدالملک پر قتیبہ کے قتل کا کوئی الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی وفات: سلیمان بن عبدالملک پر سب سے بڑا الزام محمد بن قاسم کے معاملہ میں لگایا جاتا ہے، سلیمان کو اگر حجاج سے عداوت و دشمنی تھی تو اس دشمنی کو حجاج کے رشتہ داروں تک بلا وجہ وسیع نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن افسوس ہے کہ سلیمان نے محمد بن قاسم رحمہ اللہ کو بھی اسی طرح کشتنی و گردن ہونی سمجھا، جس طرح وہ حجاج کو